ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے، (میں کیا کروں؟) ابوالدرداء رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو“۱؎۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی»(میری ماں) کہا اور کبھی «إن أبی»(میرا باپ) کہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1899]
وضاحت: ۱؎: یعنی ماں باپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اس کا خاص خیال رکھا جائے، اگر والد کو جنس مان لیا جائے تو ماں باپ دونوں مراد ہوں گے، یا حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ والد کے مقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے تو والدہ کے مقام کا کیا حال ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (910) ، المشكاة (4928 / التحقيق الثانى)
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1900]
اس سند سے عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے (موقوفاً) اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ شعبہ نے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- شعبہ کے شاگردوں نے اسی طرح «عن شعبة عن يعلى بن عطاء عن أبيه عن عبد الله بن عمرو» کی سند سے موقوفا روایت کی ہے، ہم خالد بن حارث کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں، جس نے شعبہ سے اس حدیث کو مرفوعاً روایت کی ہو، ۲- خالد بن حارث ثقہ ہیں، مامون ہیں، کہتے ہیں: میں نے بصرہ میں خالد بن حارث جیسا اور کوفہ میں عبداللہ بن ادریس جیسا کسی کو نہیں دیکھا، ۳- اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1900M]