الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
49. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْخُلَفَاءَ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ
49. باب: قیامت تک خلفاء قریش سے ہوں گے۔
حدیث نمبر: 2227
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي الْهُذَيْلِ، يَقُولُ: كَانَ نَاسٌ مِنْ رَبِيعَةَ عِنْدَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ: لَتَنْتَهِيَنَّ قُرَيْشٌ، أَوْ لَيَجْعَلَنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ فِي جُمْهُورٍ مِنَ الْعَرَبِ غَيْرِهِمْ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: كَذَبْتَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قُرَيْشٌ وُلَاةُ النَّاسِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن ابی ہذیل کہتے ہیں کہ قبیلہ ربیعہ کے کچھ لوگ عمرو بن العاص رضی الله عنہ کے پاس تھے، قبیلہ بکر بن وائل کے ایک آدمی نے کہا: قریش باز رہیں ۱؎، ورنہ اللہ تعالیٰ خلافت کو ان کے علاوہ جمہور عرب میں کر دے گا، عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے کہا: تم جھوٹ اور غلط کہہ رہے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: قریش قیامت تک خیر (اسلام) و شر (جاہلیت) میں لوگوں کے حاکم ہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2227]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10736) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی فسق و فجور سے قریش باز رہیں۔
۲؎: یعنی زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں قریش حاکم و خلیفہ ہیں، اور قیامت تک خلافت انہیں میں باقی رہنی چاہیئے، یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم نہیں مانا، جیسے دوسرے فرمان رسول کو نہیں مان رہے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1155)