الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
25. باب وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ
25. باب: سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3177
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ مَرْثَدُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ، وَكَانَ رَجُلًا يَحْمِلُ الْأَسْرَى مِنْ مَكَّةَ حَتَّى يَأْتِيَ بِهِمْ الْمَدِينَةَ، قَالَ: وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ بِمَكَّةَ يُقَالُ لَهَا عَنَاقٌ وَكَانَتْ صَدِيقَةً لَهُ، وَإِنَّهُ كَانَ وَعَدَ رَجُلًا مِنْ أُسَارَى مَكَّةَ يَحْمِلُهُ، قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى ظِلِّ حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ، قَالَ: فَجَاءَتْ عَنَاقٌ فَأَبْصَرَتْ سَوَادَ ظِلِّي بِجَنْبِ الْحَائِطِ، فَلَمَّا انْتَهَتْ إِلَيَّ عَرَفَتْهُ، فَقَالَتْ: مَرْثَدٌ، فَقُلْتُ: مَرْثَدٌ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا هَلُمَّ فَبِتْ عِنْدَنَا اللَّيْلَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا عَنَاقُ، حَرَّمَ اللَّهُ الزِّنَا، قَالَتْ: يَا أَهْلَ الْخِيَامِ، هَذَا الرَّجُلُ يَحْمِلُ أَسْرَاكُمْ، قَالَ: فَتَبِعَنِي ثَمَانِيَةٌ وَسَلَكْتُ الْخَنْدَمَةَ، فانتهيت إلى كهف أو غار فدخلت، فجاءوا حتى قاموا على رأسي فبالوا، فطل بولهم على رأسي وأعماهم الله عني، قَالَ: ثُمَّ رَجَعُوا وَرَجَعْتُ إِلَى صَاحِبِي فَحَمَلْتُهُ وَكَانَ رَجُلًا ثَقِيلًا، حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْإِذْخِرِ، فَفَكَكْتُ عَنْهُ كَبْلَهُ، فَجَعَلْتُ أَحْمِلُهُ يُعِيِنُنِي حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْكِحُ عَنَاقًا مَرَّتَيْنِ فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا حَتَّى نَزَلَتْ: الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سورة النور آية 3، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مَرْثَدُ " الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً، وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ، فَلَا تَنْكِحْهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مرثد بن مرثد نامی صحابی وہ ایسے (جی دار و بہادر) شخص تھے جو (مسلمان) قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے آیا کرتے تھے، اور مکہ میں عناق نامی ایک زانیہ، بدکار عورت تھی، وہ عورت اس صحابی کی (ان کے اسلام لانے سے پہلے کی) دوست تھی، انہوں نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک قیدی شخص سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے قید سے نکال کر لے جائیں گے، کہتے ہیں کہ میں (اسے قید سے نکال کر مدینہ لے جانے کے لیے) آ گیا، میں ایک چاندنی رات میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے سایہ میں جا کر کھڑا ہوا ہی تھا کہ عناق آ گئی۔ دیوار کے اوٹ میں میری سیاہ پرچھائیں اس نے دیکھ لی، جب میرے قریب پہنچی تو مجھے پہچان کر پوچھا: مرثد ہونا؟ میں نے کہا: ہاں، مرثد ہوں، اس نے خوش آمدید کہا، (اور کہا:) آؤ، رات ہمارے پاس گزارو، میں نے کہا: عناق! اللہ نے زنا کو حرام قرار دیا ہے، اس نے شور مچا دیا، اے خیمہ والو (دوڑو) یہ شخص تمہارے قیدیوں کو اٹھائے لیے جا رہا ہے، پھر میرے پیچھے آٹھ آدمی دوڑ پڑے، میں خندمہ (نامی پہاڑ) کی طرف بھاگا اور ایک غار یا کھوہ کے پاس پہنچ کر اس میں گھس کر چھپ گیا، وہ لوگ بھی اوپر چڑھ آئے اور میرے سر کے قریب ہی کھڑے ہو کر۔ انہوں نے پیشاب کیا تو ان کے پیشاب کی بوندیں ہمارے سر پر ٹپکیں، لیکن اللہ نے انہیں اندھا بنا دیا، وہ ہمیں نہ دیکھ سکے، وہ لوٹے تو میں بھی لوٹ کر اپنے ساتھی کے پاس (جسے اٹھا کر مجھے لے جانا تھا) آ گیا، وہ بھاری بھر کم آدمی تھے، میں نے انہیں اٹھا کر (پیٹھ پر) لاد لیا، اذخر (کی جھاڑیوں میں) پہنچ کر میں نے ان کی بیڑیاں توڑ ڈالیں اور پھر اٹھا کر چل پڑا، کبھی کبھی اس نے بھی میری مدد کی (وہ بھی بیڑیاں لے کر چلتا) اس طرح میں مدینہ آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں عناق سے شادی کر لوں؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھر یہ آیت «الزاني لا ينكح إلا زانية أو مشركة والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك وحرم ذلك على المؤمنين» زانی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے اور زانیہ سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے، مسلمانوں پر یہ نکاح حرام ہے (النور: ۳)، نازل ہوئی آپ نے (اس آیت کے نزول کے بعد مرثد بن ابی مرثد سے) فرمایا: اس سے نکاح نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3177]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 5 (2051)، سنن النسائی/النکاح 12 (3228) (تحفة الأشراف: 8753) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

حدیث نمبر: 3178
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَقُمْتُ مِنْ مَكَانِي إِلَى مَنْزِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ لِي إِنَّهُ قَائِلٌ، فَسَمِعَ كَلَامِي، فَقَالَ لِيَ: ابْنَ جُبَيْرٍ؟ ادْخُلْ مَا جَاءَ بِكَ إِلَّا حَاجَةٌ، قَالَ: فَدَخَلْتُ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدِ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ سورة النور آية 6 حَتَّى خَتَمَ الْآيَاتِ، قَالَ: فَدَعَا الرَّجُلَ فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ وَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ وَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مصعب بن زبیر رضی الله عنہ کی امارت کے زمانے میں مجھ سے پوچھا گیا: کیا لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کر دی جائے گی؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آ گیا، ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، مجھ سے کہا گیا کہ وہ قیلولہ فرما رہے ہیں، مگر انہوں نے میری بات چیت سن لی۔ اور مجھے (پکار کر) کہا: ابن جبیر! اندر آ جاؤ، تم کسی (دینی) ضرورت ہی سے آئے ہو گے، میں اندر داخل ہوا، دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے کجاوے کے نیچے ڈالنے والا کمبل بچھائے ہوئے ہیں، میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! پاک اور برتر ذات ہے اللہ کی، ہاں، (سنو) سب سے پہلا شخص جس نے اس بارے میں مسئلہ پوچھا وہ فلاں بن فلاں تھے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا یعنی زناکاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیا کرے؟ اگر بولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے اور اگر چپ رہتا ہے تو بڑی بات پر چپ رہتا ہے، آپ یہ سن کر چپ رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب اس کے بعد ایسا واقعہ پیش ہی آ گیا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: میں نے آپ سے جو بات پوچھی تھی، اس سے میں خود دوچار ہو گیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی آیات «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» ۱؎ سے ختم آیات تک «والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين» نازل فرمائیں، ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اسے نصیحت کیا، اسے سمجھایا بجھایا، اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے، اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس عورت پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے، اسے بھی وعظ و نصیحت کی، سمجھایا بجھایا، اسے بھی بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکا اور آسان ہے ۲؎، اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! اس نے سچ نہیں کہا ہے، پھر آپ نے لعان کی شروعات مرد سے کی، مرد نے چار بار گواہیاں دی کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ سچا ہے، پانچویں بار میں کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی اللہ کی چار گواہیاں دیں، اللہ گواہ ہے کہ اس کا شوہر جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہا: اللہ کا غضب ہو اس پر اگر اس کا شوہر سچوں میں سے ہو، اس کے بعد آپ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سہل بن سعد رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3178]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1202 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہیں کہ اس پر اللہ کی تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو، اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہو سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو (النور: ۶-۹)۔
۲؎: اگر گناہ سرزد ہوا ہے تو اسے قبول کر لو اور متعینہ سزا جھیل جاؤ ورنہ آخرت کا عذاب تو بہت بھاری اور سخت ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3179
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ "، قَالَ: فَقَالَ هِلَالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلًا عَلَى امْرَأَتِهِ أَيَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ؟ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ "، قَالَ: فَقَالَ هِلَالٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ وَلَيَنْزِلَنَّ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 6 ـ 9، قَالَ: فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَجَاءَا، فَقَامَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ: فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ " ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 9 قَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَسَتْ حَتَّى ظَنَّنَا أَنْ سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَكَانَ لَنَا وَلَهَا شَأْنٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، وَهَكَذَا رَوَى عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی، ہلال نے کہا: جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی۔ ہلال نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس معاملے میں کوئی ایسی چیز ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچا دے گی، پھر (اسی موقع پر) آیت «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» سے «والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين» تک نازل ہوئی آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب آپ پڑھ کر فارغ ہوئے تو ان دونوں کو بلا بھیجا، وہ دونوں آئے، پھر ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہیاں دیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سمجھانے لگے: اللہ کو معلوم ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے تو کیا تم میں سے کوئی ہے جو توبہ کر لے؟ پھر عورت کھڑی ہوئی، اور اس نے بھی گواہی دی، پھر جب پانچویں گواہی اللہ کی اس پر لعنت ہو اگر وہ سچا ہو دینے کی باری آئی، تو لوگوں نے اس سے کہا: یہ گواہی اللہ کے غضب کو واجب کر دے گی ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: (لوگوں کی بات سن کر) وہ ٹھٹکی اور ذلت و شرمندگی سے سر جھکا لیا، ہم سب نے گمان کیا کہ شاید وہ (اپنی پانچویں گواہی) سے پھر جائے گی، مگر اس نے کہا: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے ذلیل و رسوا نہ کروں گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس عورت کو دیکھتے رہو اگر وہ کالی آنکھوں والا موٹے چوتڑ والا اور بھری رانوں والا بچہ جنے تو سمجھ لو کہ دہ شریک بن سحماء کا ہے، تو اس نے ایسا ہی بچہ جنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کتاب اللہ (قرآن) سے اس کا فیصلہ (لعان کا) نہ آ چکا ہوتا تو ہماری اور اس کی ایک عجیب ہی شان ہوتی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے ہشام بن حسان کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- اس حدیث کو عباد بن منصور نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے،
۳- ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس روایت میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3179]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة النور 2 (4746)، والطلاق 29 (5308)، سنن ابی داود/ الطلاق 27 (2254)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 27 (2067) (تحفة الأشراف: 6225)، و مسند احمد (1/273) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی میں اس پر حد جاری کر کے ہی رہتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2067)

حدیث نمبر: 3180
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا، فَتَشَهَّدَ وَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي "، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، وَقَامَ رَجُلٌ مِنَ بَنِي الْخَزْرَجِ وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ، فَقَالَ: كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنَ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ، حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ، فَعَثَرَتْ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ، فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّانِيَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ، فَقُلْتُ: فِي أَيِّ شَيْءٍ، قَالَتْ: فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ، قُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا؟ قَالَتْ: نَعَمْ، وَاللَّهِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَكَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، وَوُعِكْتُ، فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ، فَدَخَلْتُ الدَّارَ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، فَقَالَتْ أُمِّي: مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ؟ قَالَتْ: فَأَخْبَرْتُهَا وَذَكَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ، فَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، قَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقِيلَ فِيهَا فَإِذَا هِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، قَالَتْ: قُلْتُ: وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: نَعَمْ، وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَكَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَنَزَلَ، فَقَالَ لِأُمِّي: مَا شَأْنُهَا؟ قَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ: أَقَسَمْتُ عَلَيْكِ يَا بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ فَرَجَعْتُ، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا، وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَصْدِقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، فَبَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَتْ: وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالَا حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَقَدِ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ "، قَالَتْ: وَقَدْ جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا، فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي، فَقُلْتُ: أَجِبْهُ، قَالَ: فَمَاذَا أَقُولُ؟ فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي فَقُلْتُ: أَجِيبِيهِ، قَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا؟ قَالَتْ: فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لِي لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُكُمْ، وَلَئِنْ قُلْتُ: إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّهَا قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا، قَالَتْ: وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18 قَالَتْ: وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ، فَسَكَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَيَقُولُ: " الْبُشْرَى يَا عَائِشَةُ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاءَتَكِ "، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا، فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: لَا وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُكُمَا وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ، تَقُولُ: أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسُوسُهُ وَيَجْمَعُهُ، وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ، قَالَتْ: فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ سورة النور آية 22 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، يَعْنِي: أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَعْنِي: مِسْطَحًا، إِلَى قَوْلِهِ أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى، وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا، وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمَعْمَرٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، وعبيد الله بن عبد الله، عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بےخبر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا: لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر میں کبھی بھی میری غیر موجودگی میں داخل نہیں ہوا، وہ جب بھی میرے گھر میں آیا ہے میں موجود رہا ہوں، اور جب بھی میں گھر سے غائب ہوا، سفر میں رہا وہ بھی میرے ساتھ گھر سے دور سفر میں رہا ہے، (یہ سن کر) سعد بن معاذ رضی الله عنہ نے کھڑے ہو کر، عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں ان کی گردنیں اڑا دوں، (یہ سن کر) خزرج قبیلے کا ایک اور شخص جس کے قبیلے سے حسان بن ثابت کی ماں تھیں کھڑا ہوا اس نے (سعد بن معاذ سے مخاطب ہو کر) کہا: آپ جھوٹ اور غلط بات کہہ رہے ہیں، سنئیے، اللہ کی قسم! اگر یہ (تہمت لگانے والے آپ کے قبیلے) اوس کے ہوتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ آپ ان کی گردنیں اڑا دیں، یہ بحث و تکرار اتنی بڑھی کہ اوس و خزرج کے درمیان مسجد ہی میں فساد عظیم برپا ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا، (عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں) مجھے اس کی بھی خبر نہ ہوئی، جب اس دن کی شام ہوئی تو میں اپنی (قضائے حاجت کی) ضرورت سے گھر سے باہر نکلی، میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی تھیں، وہ (راستہ میں) ٹھوکر کھائی تو کہہ اٹھیں: مسطح تباہ برباد ہو! میں نے ان سے کہا: آپ کیسی ماں ہیں بیٹے کو گالی دیتی ہیں؟ تو وہ چپ رہیں، پھر دوبارہ ٹھوکر کھائی تو پھر وہی لفظ دہرایا، مسطح ہلاک ہو، میں نے پھر (ٹوکا) میں نے کہا: آپ کیسی ماں ہیں؟ اپنے بیٹے کو گالی (بد دعا) دیتی ہیں؟ وہ پھر خاموش رہیں، پھر جب تیسری بار ٹھوکر کھائی تو پھر یہی لفظ دہرایا تو میں نے ڈانٹا (اور جھڑک دیا) کیسی (خراب) ماں ہیں آپ؟ اپنے ہی بیٹے کو برا بھلا کہہ رہی ہیں، وہ بولیں: (بیٹی) قسم اللہ کی میں اسے صرف تیرے معاملے میں برا بھلا کہہ رہی ہوں، میں نے پوچھا: میرے کس معاملے میں؟ تب انہوں نے مجھے ساری باتیں کھول کھول کر بتائیں، میں نے ان سے پوچھا: کیا ایسا ہوا؟ (یہ ساری باتیں پھیل گئیں؟) انہوں نے کہا: ہاں، قسم اللہ کی! یہ سن کر میں گھر لوٹ آئی، تو ان میں جس کام کے لیے نکلی تھی، نکلی ہی نہیں، مجھے اس قضائے حاجت کی تھوڑی یا زیادہ کچھ بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی، (بلکہ) مجھے تیز بخار چڑھ آیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: مجھے میرے ابا کے گھر بھیج دیجئیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک لڑکا کر دیا، (اور میں اپنے ابا کے گھر آ گئی) میں گھر میں داخل ہوئی تو (اپنی ماں) ام رومان کو نیچے پایا اور (اپنے ابا) ابوبکر کو گھر کے اوپر پڑھتے ہوئے پایا، میری ماں نے کہا: بیٹی! کیسے آئیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے انہیں بتا دیا اور انہیں ساری باتیں (اور سارا قصہ) سنا دیا، مگر انہیں یہ باتیں سن کر وہ اذیت نہ پہنچی جو مجھے پہنچی، انہوں نے کہا: بیٹی! اپنے آپ کو سنبھالو، کیونکہ اللہ کی قسم! بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی مرد کی کوئی حسین و جمیل عورت ہو جس سے وہ مرد (بے انتہا) محبت کرتا ہو، اس سے اس کی سوکنیں حسد نہ کرتی (اور جلن نہ رکھتی) ہوں اور اس کے بارے میں لگائی بجھائی نہ کرتی ہوں، غرضیکہ انہیں اتنا صدمہ نہ پہنچا جتنا مجھے پہنچا، میں نے پوچھا: کیا میرے ابو جان کو بھی یہ بات معلوم ہو چکی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے (پھر) پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان باتوں سے واقف ہو چکے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، (یہ سن کر) میں غم سے نڈھال ہو گئی اور رو پڑی، ابوبکر رضی الله عنہ چھت پر قرآن پڑھ رہے تھے، میرے رونے کی آواز سن کر نیچے اتر آئے، میری ماں سے پوچھا، اسے کیا ہوا؟ (یہ کیوں رو رہی ہے؟) انہوں نے کہا: اس کے متعلق جو باتیں کہی گئیں (اور افواہیں پھیلائی گئی ہیں) وہ اسے بھی معلوم ہو گئی ہیں، (یہ سن کر) ان کی بھی آنکھیں بہہ پڑیں، (مگر) انہوں نے کہا: اے میری (لاڈلی) بیٹی! میں تمہیں قسم دلا کر کہتا ہوں تو اپنے گھر لوٹ جا، میں اپنے گھر واپس ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھ تاچھ کی، اس نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! میں ان میں کوئی عیب نہیں جانتی، ہاں، بس یہ بات ہے کہ (کام کرتے کرتے تھک کر) سو جاتی ہیں اور بکری آ کر گندھا ہوا آٹا کھا جاتی ہے، بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا، (باتیں نہ بنا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ سچ بتا (اس سے اس پوچھ تاچھ میں) وہ (اپنے مقام و مرتبہ سے) نیچے اتر آئے، اس نے کہا: سبحان اللہ! پاک و برتر ہے اللہ کی ذات، قسم اللہ کی! میں انہیں بس ایسی ہی جانتی ہوں جیسے سنار سرخ سونے کے ڈلے کو جانتا پہچانتا ہے، پھر اس معاملے کی خبر اس شخص کو بھی ہو گئی جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! قسم اللہ کی، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کا سینہ اور پہلو نہیں کھولا ہے ۱؎، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو کر مرے، میرے ماں باپ صبح ہی میرے پاس آ گئے اور ہمارے ہی پاس رہے۔ عصر پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لے آئے، اور ہمارے پاس پہنچے، میرے ماں باپ ہمارے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتین پڑھی، اللہ کی شایان شان حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: حمد و صلاۃ کے بعد: عائشہ! اگر تو برائی کی مرتکب ہو گئی یا اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھی ہے تو اللہ سے توبہ کر، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اسی دوران انصار کی ایک عورت آ کر دروازے میں بیٹھ گئی تھی، میں نے عرض کیا: اس عورت کے سامنے (اس طرح کی) کوئی بات کرتے ہوئے کیا آپ کو شرم محسوس نہیں ہوئی؟ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرمائی، میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی، ان سے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا جواب دیں، انہوں نے کہا: میں کیا جواب دوں؟ میں اپنی ماں کی طرف پلٹی، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کہی ہے اس بارے میں (میری طرف سے) صفائی دیجئیے، انہوں نے کہا: کیا کہوں میں؟ جب میرے ماں باپ نے کچھ جواب نہ دیا، تو میں نے کلمہ شہادت ادا کیا، اللہ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا بیان کی، پھر میں نے کہا: سنئیے، قسم اللہ کی! اگر میں آپ لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ گواہ ہے کہ میں سچی (بےگناہ) ہوں تب بھی مجھے آپ کے سامنے اس سے فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ ہی یہ بات کہنے والے ہیں اور آپ کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے ایسا کیا ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے نہیں کیا، تو آپ ضرور کہیں گے کہ اس نے تو اعتراف جرم کر لیا ہے، اور میں قسم اللہ کی! اپنے اور آپ کے لیے اس سے زیادہ مناسب حال کوئی مثال نہیں پاتی (میں نے مثال دینے کے لیے) یعقوب علیہ السلام کا نام ڈھونڈا اور یاد کیا، مگر میں اس پر قادر نہ ہو سکی، (مجھے ان کا نام یاد نہ آ سکا تو میں نے ابویوسف کہہ دیا) مگر یوسف علیہ السلام کے باپ کی مثال جب کہ انہوں نے «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» کہا ۲؎۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی تو ہم سب خاموش ہو گئے، پھر آپ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے آپ کے چہرے سے خوشی پھوٹتی ہوئی دیکھی، آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے: اے عائشہ! خوش ہو جاؤ اللہ نے تمہاری براۃ میں آیت نازل فرما دی ہے، مجھے اس وقت سخت غصہ آیا جب میرے ماں باپ نے مجھ سے کہا: کھڑی ہو کر آپ کا شکریہ ادا کر، میں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہ ہوں گی، نہ میں ان کی تعریف کروں گی اور نہ آپ دونوں کی، نہ میں ان کی احسان مند ہوں گی اور نہ آپ دونوں کا بلکہ میں اس اللہ کا احسان مند اور شکر گزار ہوں گی جس نے میری براۃ میں آیت نازل فرمائی، آپ لوگوں نے تو میری غیبت و تہمت سنی، لیکن اس پر تردید و انکار نہ کیا، اور نہ اسے روک دینے اور بدل دینے کی کوشش کی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں: رہی زینب بن حجش تو اللہ نے انہیں ان کی نیکی و دینداری کی وجہ سے بچا لیا، انہوں نے اس قضیہ میں جب بھی کہا، اچھی و بھلی بات ہی کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ (شریک بہتان ہو کر) ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہو گئی، اور جو لوگ اس بہتان بازی اور پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے وہ مسطح، حسان بن ثابت اور منافق عبداللہ بن ابی بن سلول تھے، اور یہی منافق (فتنہ پردازوں کا سردار و سرغنہ) ہی اس معاملہ میں اپنی سیاست چلاتا اور اپنے ہم خیال لوگوں کو یکجا رکھتا تھا، یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ حمنہ بھی تھی، جو اس فتنہ انگیزی میں پیش پیش تھی، ابوبکر رضی الله عنہ نے قسم کھا لی کہ اب وہ (اس احسان فراموش و بدگو) مسطح کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچائیں گے، اس پر آیت «ولا يأتل أولوا الفضل منكم والسعة» ۳؎ نازل ہوئی، اس سے یہاں مراد ابوبکر ہیں، «أن يؤتوا أولي القربى والمساكين والمهاجرين في سبيل الله» ۴؎ اس سے اشارہ مسطح کی طرف ہے۔ «ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم» ۵؎ (یہ آیت سن کر) ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: کیوں نہیں، قسم اللہ کی! ہمارے رب! ہم پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے، پھر مسطح کو دینے لگے جو پہلے دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس حدیث کو یونس بن یزید، معمر اور کئی دوسرے لوگوں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبیداللہ بن عبداللہ سے اور ان سبھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث ہشام بن عروہ کی حدیث سے لمبی بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3180]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة النور 6 (4750) و 11 (4757) (تعلیقا)، والإعتصام 29 (تعلیقا) صحیح مسلم/التوبة 10 (2770/58)، سنن ابی داود/ الأدب 156 (5219) (تحفة الأشراف: 16798)، و مسند احمد (6/59) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: میں نے کبھی کسی عورت کا آنچل تک نہیں سرکایا ہے چہ جائے گی میں ایسی گستاخی اور جسارت کروں۔
۲؎: صبر ہی بہتر ہے اور جو تم کہتے، بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی معاون و مددگار ہے۔
۳؎: اصحاب فضل اور فراخی والے قسم نہ کھائیں (النور: ۲۲)۔
۴؎: رشتہ والوں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے (النور: ۲۲)۔
۵؎: کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے، اللہ بخشنے والا مہربان ہے (النور: ۲۲)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3181
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " لَمَّا نَزَلَ عُذْرِي قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ ذَلِكَ وَتَلَا الْقُرْآنَ، فَلَمَّا نَزَلَ أَمَرَ بِرَجُلَيْنِ وَامْرَأَةٍ فَضُرِبُوا حَدَّهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میری صفائی و پاکدامنی کی آیت نازل ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا ذکر کیا، قرآن کی تلاوت کی، اور منبر سے اترنے کے بعد دو مردوں اور ایک عورت پر حد (قذف) جاری کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ان سب پر حد جاری کر دی گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے محمد بن اسحاق کی روایت کے سوا اور کسی طریقے سے نہیں جانتے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3181]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحدود 35 (4474)، سنن ابن ماجہ/الحدود 15 (2567) (تحفة الأشراف: 17898)، و مسند احمد (6/35) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2567)