الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
70. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُدَّثِّرِ
70. باب: سورۃ المدثر سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3325
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: " بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجُثِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَدَثَّرُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} إِلَى قَوْلِهِ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 ـ 5 قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرٍ، وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ وحی موقوف ہو جانے کے واقعہ کا ذکر کر رہے تھے، آپ نے دوران گفتگو بتایا: میں چلا جا رہا تھا کہ یکایک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ فرشتہ جو (غار) حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، رعب کی وجہ سے مجھ پر دہشت طاری ہو گئی، میں لوٹ پڑا (گھر آ کر) کہا: مجھے کمبل میں لپیٹ دو، تو لوگوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا، اسی موقع پر آیت «يا أيها المدثر قم فأنذر» سے «والرجز فاهجر» اے کپڑا اوڑھنے والے، کھڑے ہو جا اور لوگوں کو ڈرا، اور اپنے رب کی بڑائیاں بیان کر، اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر، اور ناپاکی کو چھوڑ دے (المدثر: ۱-۵)، تک نازل ہوئی، یہ واقعہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث یحییٰ بن کثیر نے بھی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے واسطہ سے جابر سے بھی روایت کی ہے،
۳- اور ابوسلمہ کا نام عبداللہ ہے۔ (یہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے بیٹے تھے اور ان کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا تھا)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3325]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الوحي 1 (4)، وبدء الخلق 7 (3238)، وتفسیر المدثر 2 (4922)، وتفسیر ”اقراء باسم ربک“ (4954)، و الأدب 118 (6214)، صحیح مسلم/الإیمان 73 (161) (تحفة الأشراف: 3151) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3326
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الصَّعُودُ جَبَلٌ مِنْ نَارٍ يَتَصَعَّدُ فِيهِ الْكَافِرُ سَبْعِينَ خَرِيفًا ثُمَّ يُهْوَى بِهِ كَذَلِكَ فِيهِ أَبَدًا "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ، وَقَدْ رُوِيَ شَيْءٌ مِنْ هَذَا عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَوْلُهُ مَوْقُوفٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صعود» جہنم کا ایک پہاڑ ہے، اس پر کافر ستر سال تک چڑھتا رہے گا پھر وہاں سے لڑھک جائے گا، یہی عذاب اسے ہمیشہ ہوتا رہے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے مرفوع صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں،
۳- اس حدیث کا کچھ حصہ عطیہ سے مروی ہے جسے وہ ابوسعید سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3326]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2576 (ضعیف)»

وضاحت: ۱؎: مولف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «سأرهقه صعودا» (المدثر: ۱۷) کی تفسیر میں لائے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف ومضى برقم (2702) // (473 / 2715) ، ضعيف الجامع الصغير (3552) //

حدیث نمبر: 3327
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ نَاسٌ مِنَ الْيَهُودِ لِأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّكُمْ كَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ؟ قَالُوا: لَا نَدْرِي حَتَّى نَسْأَلَ نَبِيَّنَا، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ غُلِبَ أَصْحَابُكَ الْيَوْمَ، قَالَ: " وَبِمَا غُلِبُوا؟ " قَالَ: سَأَلَهُمْ يَهُودُ: هَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّكُمْ كَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ؟ قَالَ: " فَمَا قَالُوا؟ " قَالَ: قَالُوا: لَا نَدْرِي حَتَّى نَسْأَلَ نَبِيَّنَا، قَالَ: " أَفَغُلِبَ قَوْمٌ سُئِلُوا عَمَّا لَا يَعْلَمُونَ، فَقَالُوا: لَا نَعْلَمُ حَتَّى نَسْأَلَ نَبِيَّنَا، لَكِنَّهُمْ قَدْ سَأَلُوا نَبِيَّهُمْ "، فَقَالُوا: أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً، عَلَيَّ بِأَعْدَاءِ اللَّهِ إِنِّي سَائِلُهُمْ عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ وَهِيَ الدَّرْمَكُ، فَلَمَّا جَاءُوا قَالُوا: يَا أَبَا الْقَاسِمِ كَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ؟ قَالَ: هَكَذَا وَهَكَذَا فِي مَرَّةٍ عَشَرَةٌ وَفِي مَرَّةٍ تِسْعَةٌ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تُرْبَةُ الْجَنَّةِ؟ " قَالَ: فَسَكَتُوا هُنَيْهَةً ثُمَّ قَالُوا: خُبْزَةٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْخُبْزُ مِنَ الدَّرْمَكِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ کچھ یہودیوں نے بعض صحابہ سے پوچھا: کیا تمہارا نبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہم نہیں جانتے مگر پوچھ کر جان لیں گے، اسی دوران ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، کہا: اے محمد! آج تو تمہارے ساتھی ہار گئے، آپ نے پوچھا: کیسے ہار گئے؟ اس نے کہا: یہود نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارا نبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں؟ آپ نے پوچھا: انہوں نے کیا جواب دیا؟ اس نے کہا: انہوں نے کہا: ہمیں نہیں معلوم، ہم اپنے نبی سے پوچھ کر بتا سکتے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا وہ قوم ہاری ہوئی مانی جاتی ہے جس سے ایسی چیز پوچھی گئی ہو جسے وہ نہ جانتی ہو اور انہوں نے کہا ہو کہ ہم نہیں جانتے جب تک کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ نہ لیں؟ (اس میں ہارنے کی کوئی بات نہیں ہے) البتہ ان لوگوں نے تو اس سے بڑھ کر بےادبی و گستاخی کی بات کی، جنہوں نے اپنے نبی سے یہ سوال کیا کہ ہمیں اللہ کو کھلے طور پر دکھا دو، آپ نے فرمایا: اللہ کے ان دشمنوں کو ہمارے سامنے لاؤ میں ان سے جنت کی مٹی کے بارے میں پوچھتا ہوں، وہ نرم مٹی ہے، جب وہ سب یہودی آ گئے تو انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! جہنم کے نگراں لوگوں کی کتنی تعداد ہے؟ آپ نے اس طرح ہاتھ سے اشارہ فرمایا: ایک مرتبہ دس (انگلیاں دکھائیں) اور ایک مرتبہ نو (کل ۱۹) انہوں نے کہا: ہاں، (آپ نے درست فرمایا) اب آپ نے پلٹ کر ان سے پوچھا: جنت کی مٹی کا ہے کی ہے؟ راوی کہتے ہیں: وہ لوگ تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر کہنے لگے: ابوالقاسم! وہ روٹی کی ہے، آپ نے فرمایا: روٹی میدہ (نرم مٹی) کی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے مجالد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3327]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2351) (ضعیف) (سند میں مجالد ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت: ۱؎: مؤلف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «وما جعلنا أصحاب النار إلا ملائكة» (المدثر: ۳۱) کی تفسیر میں لائے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3348) // ضعيف الجامع الصغير (2937) مختصرا //

قال الشيخ زبير على زئي: (3327) إسناده ضعيف ¤ مجالد: ضعيف (تقدم:653)

حدیث نمبر: 3328
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُطَعِيُّ، وَهُوَ أَخُو حَزْمِ بْنِ أَبِي حَزْمٍ الْقُطَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةَ: هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ سورة المدثر آية 56 قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَى، فَمَنِ اتَّقَانِي فَلَمْ يَجْعَلْ مَعِي إِلَهًا، فَأَنَا أَهْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَسُهَيْلٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ ثَابِتٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «هو أهل التقوى وأهل المغفرة» وہی (اللہ) ہے جس سے ڈرنا چاہیئے، اور وہی مغفرت کرنے والا ہے (المدثر: ۵۶)، کے بارے میں فرمایا: اللہ عزوجل کہتا ہے کہ میں اس کا اہل اور سزاوار ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، تو جو مجھ سے ڈرا اور میرے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرایا تو مجھے لائق ہے کہ میں اسے بخش دوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- سہل حدیث میں قوی نہیں مانے جاتے ہیں اور وہ یہ حدیث ثابت سے روایت کرنے میں تنہا (بھی) ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3328]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 35 (4299) (تحفة الأشراف: 434) (ضعیف) (سند میں سہیل ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (4299) // ضعيف سنن ابن ماجة (936) ، المشكاة (2351 / التحقيق الثاني) ضعيف الجامع الصغير (4061) بلفظ: قال ربكم //

قال الشيخ زبير على زئي: (3328) إسناده ضعيف / جه 4299 ¤ سهيل : ضعيف (تقدم : 3250)