الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
52. باب مَا جَاءَ فِي الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدٍ قَدْ صُلِّيَ فِيهِ مَرَّةً
52. باب: جس مسجد میں ایک بار جماعت ہو چکی ہو اس میں دوبارہ جماعت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 220
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ النَّاجِيِّ الْبَصْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَتَّجِرُ عَلَى هَذَا "، فَقَامَ رَجُلٌ فَصَلَّى مَعَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , وَأَبِي مُوسَى , وَالْحَكَمِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ التَّابِعِينَ، قَالُوا: لَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ الْقَوْمُ جَمَاعَةً فِي مَسْجِدٍ قَدْ صَلَّى فِيهِ جَمَاعَةٌ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق وقَالَ آخَرُونَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلُّونَ فُرَادَى، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَمَالِكٌ , وَالشَّافِعِيُّ: يَخْتَارُونَ الصَّلَاةَ فُرَادَى، وَسُلَيْمَانُ النَّاجِيُّ بَصْرِيٌّ وَيُقَالُ: سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَأَبُو الْمُتَوَكِّلِ اسْمُهُ: عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد) آیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تھے تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟ ۱؎ ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ابوامامہ، ابوموسیٰ اور حکم بن عمیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس مسجد میں لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے ہوں اس میں (دوسری) جماعت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،
۴- اور بعض دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ وہ تنہا تنہا نماز پڑھیں، یہی سفیان، ابن مبارک، مالک، شافعی کا قول ہے، یہ لوگ تنہا تنہا نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 220]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 56 (574)، (تحفة الأشراف: 4256)، مسند احمد (3/64، 85)، سنن الدارمی/الصلاة 98 (1408) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ایک روایت میں ہے «ألا رجل يتصدق على هذا فيصلي معه» کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے کے الفاظ آئے ہیں۔
۲؎: لیکن اس حدیث میں صراحۃً یہ بات موجود ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جماعت سے نماز پسند فرمائی، اس کے لیے جماعت سے نماز پڑھ چکے آدمی کو ترغیب دی کہ جا کر ساتھ پڑھ لے تاکہ پیچھے آنے والے کی نماز جماعت سے ہو جائے، تو جب پیچھے رہ جانے والے ہی کئی ہوں تو کیوں نہ جماعت کر کے پڑھیں، «فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ» (سورة الحشر: 2) فرض نماز کی طبیعت ہی اصلاً جماعت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1146) ، الإرواء (535) ، الروض النضير (979)