عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، انس، ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم جن میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، جابر بن عبداللہ اور عمران بن حصین وغیرہم رضی الله عنہم شامل ہیں کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز کفایت نہیں کرتی، علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں: جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی گئی وہ ناقص اور ناتمام ہے۔ یہی ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 247]
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، فرض ہو یا نفل ہو، خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے ہو امام ہو یا مقتدی، ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی، اس لیے کہ «لا» نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے معنی میں اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ ازروئے شرع نماز مخصوص اقوال اور افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے، لہٰذا بعض یا کل کی نفی سے اس کی نفی ہو جائے گی اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو اور وہ صحت ہے نہ کہ کمال اس لیے کہ صحت اور کمال دونوں مجاز میں سے ہیں، صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہو گی جو ذات سے اقرب ہے، نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلہ میں ذات سے ابعد ہے۔