الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
78. باب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ
78. باب: رکوع کے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے (رفع یدین) کا بیان۔
حدیث نمبر: 255
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ " وَزَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِيثِهِ، وَكَانَ " لَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے، اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (تو بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے) ۱؎۔ ابن ابی عمر (ترمذی کے دوسرے استاذ) نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 255]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 83 (735)، و84 (736)، و85 (738)، و86 (739)، صحیح مسلم/الصلاة 9 (390)، سنن ابی داود/ الصلاة 116 (771)، سنن النسائی/الافتتاح 1 (877، 878، 879)، و86 (1026)، والتطبیق 19 (1058)، و21 (1060)، و37 (1089)، و85 (1155)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 15 (858)، (تحفة الأشراف: 6816)، موطا امام مالک/الصلاة 4 (16)، مسند احمد (2/8، 18، 44، 45، 47، 63، 100، 147)، سنن الدارمی/الصلاة 41 (1485)، و71 (1347) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مسنون ہے اور بعض حدیثوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کرنا ثابت ہے، صحابہ کرام اور تابعین عظام میں زیادہ تر لوگوں کا اسی پر عمل ہے، خلفاء راشدین اور عشرہ مبشرہ سے بھی رفع یدین ثابت ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین کی حدیثیں منسوخ ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ رفع یدین کی حدیثیں ایسے صحابہ سے بھی مروی ہیں جو آخر میں اسلام لائے تھے مثلاً وائل بن حجر ہیں جو غزوہ تبوک کے بعد ۹ ھ میں داخل اسلام ہوئے ہیں، اور یہ اپنے اسلام لانے کے دوسرے سال جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو وہ سخت سردی کا زمانہ تھا انہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع یدین کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (858)

حدیث نمبر: 256
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عُمَرَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَمَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، وَأَنَسٍ، وأبي هريرةَ، وأبي حُمْيدٍ، وَأبي أُسَيْدٍ، وسَهْلِ بن سعدٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وأبي قتادةَ، وَأبي موسى الأشعري، وجابرِ، وعُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهَذَا يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ , وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَأَبُو هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٌ وَابْنُ عَبَّاسٍ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ وَغَيْرُهُمْ، وَمِنَ التَّابِعِينَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ , وَعَطَاءٌ , وَطَاوُسٌ , وَمُجَاهِدٌ , وَنَافِعٌ , وَسَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَغَيْرُهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ: مَالِكٌ , وَمَعْمَرٌ , وَالْأَوْزَاعِيُّ , وَابْنُ عُيَيْنَةَ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ مَنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، وَذَكَرَ حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْآمُلِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يَرَى رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ، وقَالَ يَحْيَى، وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: كَانَ مَعْمَرٌ يَرَى رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ وسَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: كَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , وَعُمَرُ بْنُ هَارُونَ , وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِذَا افْتَتَحُوا الصَّلَاةَ وَإِذَا رَكَعُوا وَإِذَا رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ.
‏‏‏‏ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، علی، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، انس، ابوہریرہ، ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، ابوقتادۃ، ابوموسیٰ اشعری، جابر اور عمیر لیثی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- یہی صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر، جابر بن عبداللہ، ابوہریرہ، انس، ابن عباس، عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم وغیرہ شامل ہیں اور تابعین میں سے حسن بصری، عطاء، طاؤس، مجاہد، نافع، سالم بن عبداللہ، سعید بن جبیر وغیرہ کہتے ہیں، اور یہی مالک، معمر، اوزاعی، ابن عیینہ، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،
۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: جو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کی حدیث (دلیل) صحیح ہے، پھر انہوں نے بطریق زہری روایت کی ہے،
۵- اور ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے والی ثابت نہیں ہے،
۶- مالک بن انس نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۷- عبدالرزاق کا بیان ہے کہ معمر بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۸- اور میں نے جارود بن معاذ کو کہتے سنا کہ سفیان بن عیینہ، عمر بن ہارون اور نضر بن شمیل اپنے ہاتھ اٹھاتے جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 256]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (255)