الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
17. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ السُّحُورِ
17. باب: سحری کھانے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 708
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سحری کھاؤ ۱؎، کیونکہ سحری میں برکت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود، جابر بن عبداللہ، ابن عباس، عمرو بن العاص، عرباض بن ساریہ، عتبہ بن عبداللہ اور ابو الدرداء رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے روزوں اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کھانے کا ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 708]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 9 (1095)، سنن النسائی/الصیام 18 (2148)، (تحفة الأشراف: 1068 و1433) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 20 (1923)، وسنن ابن ماجہ/الصیام 22 (1692)، و مسند احمد (3/99، 215، 258، 281)، وسنن الدارمی/الصوم 9 (1738)، من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت: ۱؎: امر کا صیغہ ندب و استحباب کے لیے ہے سحری کھانے سے آدمی پورے دن اپنے اندر طاقت و توانائی محسوس کرتا ہے اس کے برعکس جو سحری نہیں کھاتا اسے جلدی بھوک پیاس ستانے لگتی ہے۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ سحری کھانا اس امت کی امتیازی خصوصیات میں سے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1692)

حدیث نمبر: 709
وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ. قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَهْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ، وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عُلَيٍّ وَهُوَ مُوسَى بْنُ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيُّ.
اس سند سے عمرو بن عاص رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اور یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل مصر موسى بن عَلِيّ (عین کے فتحہ کے ساتھ): کہتے ہیں اور اہل عراق موسى بن عُليّ (عین کے ضمہ کے ساتھ) کہتے ہیں اور وہ موسیٰ بن عُلَيّ بن رباح اللخمی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 709]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 9 (1096)، سنن ابی داود/ الصیام 15 (2343)، سنن النسائی/الصیام 27 (2168)، (تحفة الأشراف: 10749)، مسند احمد (4/197)، سنن الدارمی/الصوم 9 (1738) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح حجاب المرأة المسلمة (88) ، صحيح أبي داود (2029)