الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
54. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي أَكْلِ الثَّمَرَةِ لِلْمَارِّ بِهَا
54. باب: راہی کے لیے راستہ کے درخت کا پھل کھانے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1287
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ دَخَلَ حَائِطًا فَلْيَأْكُلْ، وَلَا يَتَّخِذْ خُبْنَةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، وَرَافِعِ بْنِ عَمْرٍو، وَعُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَلِيمِ، وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِابْنِ السَّبِيلِ فِي أَكْلِ الثِّمَارِ، وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ إِلَّا بِالثَّمَنِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی باغ میں داخل ہو تو (پھل) کھائے، کپڑوں میں باندھ کر نہ لے جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے۔ ہم اسے اس طریق سے صرف یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عباد بن شرحبیل، رافع بن عمرو، عمیر مولی آبی اللحم اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم نے راہ گیر کے لیے پھل کھانے کی رخصت دی ہے۔ اور بعض نے اسے ناجائز کہا ہے، الا یہ کہ قیمت ادا کر کے ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1287]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 67 (2301)، (تحفة الأشراف: 8222) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2301) ، وانظر الذي بعده (1288)

قال الشيخ زبير على زئي: (1287) إسناده ضعيف / جه 2301 ¤ يحيي بن سليم الطائفي ضعيف عن عبيد الله ، صحيح الحديث عن غيره وانظر تسھيل الحاجة (2301)

حدیث نمبر: 1288
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَرْمِي نَخْلَ الْأَنْصَارِ، فَأَخَذُونِي، فَذَهَبُوا بِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا رَافِعُ، لِمَ تَرْمِي نَخْلَهُمْ "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْجُوعُ، قَالَ: " لَا تَرْمِ، وَكُلْ مَا وَقَعَ أَشْبَعَكَ اللَّهُ وَأَرْوَاكَ ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
رافع بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر مارتا تھا، ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے آپ نے پوچھا: رافع! تم ان کے کھجور کے درختوں پر پتھر کیوں مارتے ہو؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھوک کی وجہ سے، آپ نے فرمایا: پتھر مت مارو، جو خودبخود گر جائے اسے کھاؤ اللہ تمہیں آسودہ اور سیراب کرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1288]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 94 (2622)، سنن ابن ماجہ/التجارات 67 (2299)، (تحفة الأشراف: 3595) (ضعیف) (سند میں ”صالح“ اور ان کے باپ ”ابو جبیر“ دونوں مجہول ہیں، اور ابوداود وابن ماجہ کی سند میں ”ابن ابی الحکم“ مجہول ہیں نیز ان کی دادی مبہم ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2299) // ضعيف سنن ابن ماجة (504) ، ضعيف الجامع الصغير (6210) ، ضعيف أبي داود (564 / 2622) مع اختلاف باللفظ //

قال الشيخ زبير على زئي: (1288) إسناده ضعيف ¤ أبوجير لم يوثقه غير الترمذي وھو مقبول عند الحافظ ابن حجر (تق:8010) أي مجھول الحال وللحديث شاھد ضعيف عند أبى داود (2622)و ابن ماجه (2299)

حدیث نمبر: 1289
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ، فَقَالَ: " مَنْ أَصَابَ مِنْهُ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لٹکے ہوئے پھل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: جو ضرورت مند اس میں سے (ضرورت کے مطابق) لے لے اور کپڑے میں جمع کرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1289]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ اللقطة ح رقم 10 (1710) و الحدود 12 (4390)، سنن النسائی/قطع السارق 11 (4961)، (تحفة الأشراف: 8798) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (2413)