الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
55. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنِ الثُّنْيَا
55. باب: بیع میں استثناء کرنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1290
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، وَالثُّنْيَا إِلَّا أَنْ تُعْلَمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کو مستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس طریق سے بروایت یونس بن عبید جسے یونس نے عطاء سے اور عطاء نے جابر سے روایت کی ہے حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1290]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرب والمساقاة 17 (2381)، صحیح مسلم/البیوع 16 (1536)، سنن ابی داود/ البیوع 34 (3405)، سنن النسائی/الأیمان (والمزارعة)، 45 (3910)، والبیوع 74 (4647)، سنن ابن ماجہ/التجارات 54 (2266)، (تحفة الأشراف: 2495)، و مسند احمد (3/313، 356، 360، 364، 391، 392)، وانظر ما یأتي برقم 1313 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: محاقلہ اور مزابنہ کی تفسیر گزر چکی ہے دیکھئیے حدیث نمبر (۱۲۲۴)۔
۲؎: مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یا ربع پیداوار پر زمین بٹائی پر لینا، یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں، بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوار مزارع کے لیے اور کسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کر لیتے تھے، ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ بسا اوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اور مالک والا تباہ ہو جاتا ہے، اور کبھی اس کے برعکس ہو جاتا ہے، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے، اس لیے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
۳؎: اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا باغ بیچتا ہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیونکہ مستثنیٰ کئے ہوئے درخت مجہول ہیں۔ اور اگر تعیین کر دے تو جائز ہے جیسا کہ اوپر حدیث میں اس کی اجازت موجود ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع