عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک سریہ میں روانہ کیا، (پھر ہم) لوگ لڑائی سے بھاگ کھڑے ہوئے، مدینہ آئے تو شرم کی وجہ سے چھپ گئے اور ہم نے کہا: ہلاک ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم بھگوڑے ہیں، آپ نے فرمایا: ”بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف یزید بن ابی زیاد کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- «فحاص الناس حيصة» کا معنی یہ ہے کہ لوگ لڑائی سے فرار ہو گئے، ۳- اور «بل أنتم العكارون» اس کو کہتے ہیں: جو فرار ہو کر اپنے امام (کمانڈر) کے پاس آ جائے تاکہ وہ اس کی مدد کرے نہ کہ لڑائی سے فرار ہونے کا ارادہ رکھتا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1716]