الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
48. باب وَمِنْ سُورَةِ الْفَتْحِ
48. باب: سورۃ الفتح سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3262
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَال: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَكَلَّمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَكَتَ، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ فَسَكَتَ، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ فَسَكَتَ، فَحَرَّكْتُ رَاحِلَتِي فَتَنَحَّيْتُ، وَقُلْتُ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كَلُّ ذَلِكَ لَا يُكَلِّمُكَ، مَا أَخْلَقَكَ بِأَنْ يَنْزِلَ فِيكَ قُرْآنٌ، قَالَ: فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي، قَالَ: فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا ابْنَ الْخَطَّابِ لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيَّ هَذِهِ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِنْهَا مَا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ مَالِكٍ مُرْسَلًا.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، میں نے آپ سے کچھ کہا، آپ خاموش رہے، میں نے پھر آپ سے بات کی آپ پھر خاموش رہے، میں نے پھر بات کی آپ (اس بار بھی) خاموش رہے، میں نے اپنی سواری کو جھٹکا دیا اور ایک جانب (کنارے) ہو گیا، اور (اپنے آپ سے) کہا: ابن خطاب! تیری ماں تجھ پر روئے، تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار اصرار کیا، اور آپ نے تجھ سے ایک بار بھی بات نہیں کی، تو اس کا مستحق اور سزاوار ہے کہ تیرے بارے میں کوئی آیت نازل ہو (اور تجھے سرزنش کی جائے) عمر بن خطاب کہتے ہیں: ابھی کچھ بھی دیر نہ ہوئی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا، وہ مجھے پکار رہا تھا، عمر بن خطاب کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے فرمایا: ابن خطاب! آج رات مجھ پر ایک ایسی سورۃ نازل ہوئی ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج نکلتا ہے اور وہ سورۃ یہ ہے «إنا فتحنا لك فتحا مبينا» بیشک اے نبی! ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے (الفتح: ۱)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- بعض نے اس حدیث کو مالک سے مرسلاً (بلاعاً) روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3262]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 35 (4177)، وتفسیر سورة الفتح 1 (4833)، وفضائل القرآن 12 (5012) (تحفة الأشراف: 10387) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3263
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " نَزَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ سورة الفتح آية 2 مَرْجِعَهُ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَيَّ آيَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عَلَى الْأَرْضِ "، ثُمَّ قَرَأَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: هَنِيئًا مَرِيئًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ بَيَّنَ اللَّهُ لَكَ مَاذَا يُفْعَلُ بِكَ، فَمَاذَا يُفْعَلُ بِنَا؟ فَنَزَلَتْ عَلَيْهِ: " لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ حَتَّى بَلَغَ فَوْزًا عَظِيمًا سورة الفتح آية 5 "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِيهِ عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیبیہ سے واپسی کے وقت «ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر» (اللہ نے جہاد اس لیے فرض کیا ہے) تاکہ اللہ تمہارے اگلے پچھلے گناہ بخش دے (الفتح: ۲)، نازل ہوئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے زمین کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہے، پھر آپ نے وہ آیت سب کو پڑھ کر سنائی، لوگوں نے (سن کر) «هنيأ مريئًا» (آپ کے لیے خوش گوار اور مبارک ہو) کہا، اے اللہ کے نبی! اللہ نے آپ کو بتا دیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا مگر ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ اس پر آیت «ليدخل المؤمنين والمؤمنات جنات تجري من تحتها الأنهار» سے لے کر سے «فوزا عظيما» تاکہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہ دور کر دے اور اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی کامیابی ہے (الفتح: ۵)، تک نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں مجمع بن جاریہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3263]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1342) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

حدیث نمبر: 3264
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، " أَنَّ ثَمَانِينَ هَبَطُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِيمِ عِنْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَهُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَقْتُلُوهُ، فَأُخِذُوا أَخْذًا، فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ سورة الفتح آية 24 الْآيَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ پر حملہ آور ہونے کے لیے اسی (۸۰) کی تعداد میں کافر تنعیم پہاڑ سے نماز فجر کے وقت اترے، وہ چاہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں، مگر سب کے سب پکڑے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت: «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم» وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے (الفتح: ۲۴)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3264]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 46 (1808)، سنن ابی داود/ الجھاد 130 (2688) (تحفة الأشراف: 309) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2408)

حدیث نمبر: 3265
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى سورة الفتح آية 26، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ قَزَعَةَ، قَالَ: وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «وألزمهم كلمة التقوى» اللہ نے انہیں تقوے کی بات پر جمائے رکھا (الفتح: ۲۶)، کے متعلق فرمایا: اس سے مراد «لا إله إلا الله» ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اسے ہم حسن بن قزعہ کے سوا کسی اور کو مرفوع روایت کرتے ہوئے نہیں جانتے،
۳- میں نے ابوزرعہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس سند کے سوا کسی اور سند سے اسے مرفوع نہیں جانا۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3265]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 31) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح