الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
100. باب خَلْقِ اللَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ
100. باب: اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کیں۔
حدیث نمبر: 3541
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " خَلَقَ اللَّهُ مِائَةَ رَحْمَةٍ، فَوَضَعَ رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ خَلْقِهِ يَتَرَاحَمُونَ بِهَا، وَعِنْدَ اللَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ رَحْمَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ، وَجُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُفْيَانَ الْبَجَلِيِّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کیں اور ایک رحمت اپنی مخلوق کے درمیان دنیا میں رکھی، جس کی بدولت وہ دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و شفقت سے پیش آتے ہیں، جب کہ اللہ کے پاس ننانوے (۹۹) رحمتیں ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سلمان اور جندب بن عبداللہ بن سفیان بجلی رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3541]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 19 (6469)، صحیح مسلم/التوبة 4 (2752)، سنن ابن ماجہ/الزہد 35 (4293) (تحفة الأشراف: 14077)، مسند احمد (2/433، 514) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس (۹۹) رحمت کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ساتھ قیامت کے دن کرے گا، اس سے بندوں کے ساتھ اللہ کی رحمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں، لیکن یہ رحمت بھی مشروط ہے شرک نہ ہونے اور توبہ استغفار کے ساتھ، ویسے بغیر توبہ کے بھی اللہ اپنی رحمت کا مظاہرہ کر سکتا ہے، «ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء» مگر مشرک کے ساتھ بغیر توبہ کے رحمت کا کوئی معاملہ نہیں «إن لایغفر أن یشرک بہ» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4293 و 4294)

حدیث نمبر: 3542
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الْعُقُوبَةِ مَا طَمِعَ فِي الْجَنَّةِ أَحَدٌ، وَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ مَا عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الرَّحْمَةِ، مَا قَنَطَ مِنَ الْجَنَّةِ أَحَدٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مومن کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کے یہاں کیسی کیسی سزائیں ہیں تو جنت کی کوئی امید نہ رکھے، اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کی رحمت کتنی وسیع و عظیم ہے تو جنت میں پہنچنے سے کوئی بھی ناامید و مایوس نہ ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ہم اسے صرف ابو العلاء کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ اپنے والد اور ان کے والد ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3542]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 19 (6469)، صحیح مسلم/التوبة 4 (2755) (تحفة الأشراف: 14079)، و مسند احمد (2/334، 397) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ان سزاؤں کے تعین میں اللہ نے کسی پر ظلم سے کام نہیں لیا ہے، یہ بالکل انصاف کے مطابق ہیں، اللہ بندوں کے لیے ظالم بالکل نہیں، رہی جنت کی رحمت کی بات تو وہ تو سو میں سے ننانوے کا معاملہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1634)

حدیث نمبر: 3543
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ حِينَ خَلَقَ الْخَلْقَ كَتَبَ بِيَدِهِ عَلَى نَفْسِهِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنے آپ سے اپنی ذات پر لکھ دیا (یعنی اپنے آپ پر فرض کر لیا) کہ میری رحمت میرے غضب (غصہ) پر غالب رہے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3543]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 1 (3194)، والتوحید 15 (7404)، و27 (7453)، و54 (7553، 7554)، صحیح مسلم/التوبة 4 (2751)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (189)، والزہد 35 (4295) (تحفة الأشراف: 14139)، و مسند احمد (2/242، 258، 260، 313، 358، 381، 397) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (189)

حدیث نمبر: 3544
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الثَّلْجِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَغْدَادَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ صَاحِبُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَرْبِيٍّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، وَثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، وَرَجُلٌ قَدْ صَلَّى وَهُوَ يَدْعُو وَيَقُولُ فِي دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَدْرُونَ بِمَ دَعَا اللَّهَ؟ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ أَنَسٍ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آئے، ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا اور دعا مانگتے ہوئے وہ اپنی دعا میں کہہ رہا تھا: «اللهم لا إله إلا أنت المنان بديع السموات والأرض ذا الجلال والإكرام» اے اللہ! تیرے سوا کوئی اور معبود برحق نہیں ہے، تو ہی احسان کرنے والا ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کا بنانے و پیدا کرنے والا ہے، اے بڑائی والے اور کرم کرنے والے (میری دعا قبول فرما)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو اس نے کس چیز سے دعا کی ہے؟ اس نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی جائے گی اللہ اسے قبول کر لے گا، اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی جائے گی اسے عطا فرما دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،
۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی انس سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3544]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1495)، سنن النسائی/السھو 58 (1301)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 9 (3858) (تحفة الأشراف: 400، 936)، و مسند احمد (3/120، 158، 245) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3858)