الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
8. بَابُ مَنْ أَهْدَى إِلَى صَاحِبِهِ وَتَحَرَّى بَعْضَ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ:
8. باب: اپنے کسی دوست کو خاص اس دن تحفہ بھیجنا جب وہ اپنی ایک خاص بیوی کے پاس ہو۔
حدیث نمبر: 2580
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمِي". وَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: إِنَّ صَوَاحِبِي اجْتَمَعْنَ، فَذَكَرَتْ لَهُ فَأَعْرَضَ عَنْهَا.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ہشام سے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ لوگ تحائف بھیجنے کے لیے میری باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا میری سوکنیں (امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن) جمع تھیں اس وقت انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (بطور شکایت لوگوں کی اس روش کا) ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2580]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

حدیث نمبر: 2581
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ نِسَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ حِزْبَيْنِ، فَحِزْبٌ فِيهِ: عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ، وَصَفِيَّةُ، وَسَوْدَةُ، وَالْحِزْبُ الْآخَرُ: أُمُّ سَلَمَةَ، وَسَائِرُ نِسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ قَدْ عَلِمُوا حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ، فَإِذَا كَانَتْ عِنْدَ أَحَدِهِمْ هَدِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُهْدِيَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَّرَهَا حَتَّى إِذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، بَعَثَ صَاحِبُ الْهَدِيَّةِ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَكَلَّمَ حِزْبُ أُمِّ سَلَمَةَ، فَقُلْنَ لَهَا: كَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَيَقُولُ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً فَلْيُهْدِهِ إِلَيْهِ حَيْثُ كَانَ مِنْ بُيُوتِ نِسَائِهِ، فَكَلَّمَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ بِمَا قُلْنَ، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا، فَقَالَتْ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا؟ فَقُلْنَ لَهَا: فَكَلِّمِيهِ، قَالَتْ: فَكَلَّمَتْهُ حِشينَ دَارَ إِلَيْهَا أَيْضًا، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا، فَقَالَتْ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا؟ فَقُلْنَ لَهَا: كَلِّمِيهِ حَتَّى يُكَلِّمَكِ، فَدَارَ إِلَيْهَا فَكَلَّمَتْهُ، فَقَالَ لَهَا: لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ، فَإِنَّ الْوَحْيَ لَمْ يَأْتِنِي وَأَنَا فِي ثَوْبِ امْرَأَةٍ إِلَّا عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَالَتْ: أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ، مِنْ أَذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ ثُمَّ إِنَّهُنَّ دَعَوْنَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَتِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ الْعَدْلَ فِي بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَلَّمَتْهُ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّةُ، أَلَا تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ، قَالَتْ: بَلَى فَرَجَعَتْ إِلَيْهِنَّ فَأَخْبَرَتْهُنَّ، فَقُلْنَ: ارْجِعِي إِلَيْهِ، فَأَبَتْ أَنْ تَرْجِعَ، فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ، فَأَتَتْهُ فَأَغْلَظَتْ، وَقَالَتْ: إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ الْعَدْلَ فِي بِنْتِ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ، فَرَفَعَتْ صَوْتَهَا حَتَّى تَنَاوَلَتْ عَائِشَةَ وَهِيَ قَاعِدَةٌ، فَسَبَّتْهَا حَتَّى إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَنْظُرُ إِلَى عَائِشَةَ، هَلْ تَكَلَّمُ؟ قَالَ: فَتَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ تَرُدُّ عَلَى زَيْنَبَ حَتَّى أَسْكَتَتْهَا، قَالَتْ: فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ، وَقَالَ: إِنَّهَا بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ". قَالَ الْبُخَارِيُّ: الْكَلَامُ الْأَخِيرُ قِصَّةُ فَاطِمَةَ، يُذْكَرُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ أَبُو مَرْوَانَ: عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ. وَعَنْ هِشَامٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَرَجُلٍ مِنَ المَوَالِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَتْ عَائِشَةُ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَتْ فَاطِمَةُ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید بن ابی اویس نے، ان سے سلیمان نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج دو گروہ میں تھیں۔ ایک میں عائشہ، حفصہ، صفیہ اور سودہ رضوان اللہ علیہن اور دوسری میں ام سلمہ اور بقیہ تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن تھیں۔ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محبت کا علم تھا اس لیے جب کسی کے پاس کوئی تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تو انتظار کرتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی باری ہوتی تو تحفہ دینے والے صاحب اپنا تحفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجتے۔ اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی جماعت کی ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے فرما دیں کہ جسے آپ کے یہاں تحفہ بھیجنا ہو وہ جہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں وہیں بھیجا کرے۔ چنانچہ ان ازواج کے مشورہ کے مطابق انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ان خواتین نے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے کہا کہ پھر ایک مرتبہ کہو۔ انہوں نے بیان کیا پھر جب آپ کی باری آئی تو دوبارہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ ازواج نے اس مرتبہ ان سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسئلہ پر بلواؤ تو سہی۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے پھر کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ فرمایا۔ عائشہ کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو۔ عائشہ کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر انہوں نے عرض کیا، آپ کو ایذا پہنچانے کی وجہ سے میں اللہ کے حضور میں توبہ کرتی ہوں۔ پھر ان ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ کہلوایا کہ آپ کی ازواج ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کے لیے آپ سے انصاف چاہتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری بیٹی! کیا تم وہ پسند نہیں کرتی جو میں پسند کروں؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، اس کے بعد وہ واپس آ گئیں اور ازواج کو اطلاع دی۔ انہوں نے ان سے پھر دوبارہ خدمت نبوی میں جانے کے لیے کہا۔ لیکن آپ نے دوبارہ جانے سے انکار کیا تو انہوں نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو بھیجا۔ وہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے سخت گفتگو کی اور کہا کہ آپ کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے اللہ کے لیے انصاف مانگتی ہیں اور ان کی آواز اونچی ہو گئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے (ان کے منہ پر) انہیں بھی برا بھلا کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کچھ بولتی ہیں یا نہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بول پڑیں اور زینب رضی اللہ عنہا کی باتوں کا جواب دینے لگیں اور آخر انہیں خاموش کر دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ آخر کلام فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے متعلق ہشام بن عروہ نے ایک اور شخص سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے زہری سے روایت کی اور انہوں نے محمد بن عبدالرحمٰن سے اور ابومروان نے بیان کیا کہ ہشام سے اور انہوں نے عروہ سے کہ لوگ تحائف بھیجنے کے لیے عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے اور ہشام کی ایک روایت قریش کے ایک صاحب اور ایک دوسرے صاحب سے جو غلاموں میں سے تھے، بھی ہے۔ وہ زہری سے نقل کرتے ہیں اور وہ محمد بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (اندر آنے کی) اجازت چاہی تو میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خدمت میں موجود تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2581]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة