ابراہیم نے کہا کہ آیت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جنبی کے لیے قرآن مجید پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ام عطیہ نے فرمایا ہمیں حکم ہوتا تھا کہ ہم حیض والی عورتوں کو بھی (عید کے دن) باہر نکالیں۔ پس وہ مردوں کے ساتھ تکبیر کہتیں اور دعا کرتیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ان سے ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہرقل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرامی نامہ کو طلب کیا اور اسے پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔ شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اور اے کتاب والو! ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قول «مسلمون» تک۔ عطاء نے جابر کے حوالہ سے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو (حج میں) حیض آ گیا تو آپ نے تمام مناسک پورے کئے سوائے بیت اللہ کے طواف کے اور آپ نماز بھی نہیں پڑھتی تھیں اور حکم نے کہا میں جنبی ہونے کے باوجود ذبح کرتا ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه» کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/حدیث: Q305]
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، انہوں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے اس طرح نکلے کہ ہماری زبانوں پر حج کے علاوہ اور کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ جب ہم مقام سرف پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ (اس غم سے) میں رو رہی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو؟ میں نے کہا کاش! میں اس سال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/حدیث: 305]