الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:


بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
11. باب صلاة المسافر والمريض
11. مسافر اور مریض کی نماز کا بیان
حدیث نمبر: 341
عن عائشة رضي الله عنها قالت: أول ما فرضت الصلاة ركعتين فأقرت صلاة السفر وأتمت صلاة الحضر. متفق عليه وللبخاري:" ثم هاجر ففرضت أربعا وأقرت صلاة السفر على الأول." زاد أحمد:" إلا المغرب فإنها وتر النهار وإلا الصبح فإنها تطول فيها القراءة".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابتداء میں دو رکعت فرض کی گئی تھیں (سفر و حضر میں جتنی نماز فرض کی گئی وہ دو رکعت تھی) پھر سفر کی نماز کو برقرار رکھا گیا (یعنی دو رکعات) اور حضر کی نماز کو پورا کر دیا گیا (یعنی چار رکعات) (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو چار رکعت فرض کر دی گئیں اور سفر کی نماز پہلی حالت پر برقرار رکھی گئی۔ احمد نے اتنا اضافہ کیا ہے سوائے نماز مغرب کے کیونکہ وہ دن کے وتر ہیں اور بجز صبح کی نماز کیونکہ اس نماز میں قرآت لمبی کی جاتی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 341]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب كيف فرضت الصلوات في الإسراء، حديث:350، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين وقصرها، حديث:685، وحديث ((ثم هاجر....)) أخرجه البخاري، حديث: 3935، وحديث ((إلا المغرب فإنها وترالنهار)) أخرجه أحمد:6 /241، 272 وهو حديث صحيح.»

حدیث نمبر: 342
وعن عائشة رضي الله عنها: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان يقصر في السفر ويتم ويصوم ويفطر. رواه الدارقطني ورواته ثقات إلا أنه معلول والمحفوظ عن عائشة من فعلها وقالت:" إنه لا يشق علي." أخرجه البيهقي.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں قصر اور اتمام دونوں پر عمل فرماتے تھے نیز روزہ رکھتے بھی تھے اور افطار بھی کر لیتے تھے۔ (دارقطنی) اس کے راوی ثقہ ہیں، مگر حدیث معلول ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذاتی فعل کی صورت میں محفوظ ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ روزہ مجھ پر گراں نہیں۔ بیہقی نے اس کی تخریج کی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 342]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:2 /189 وقال: "هذا إسناد صحيح" والعلة مردودة، والبيهقي:3 /143، وله شاهد صحيح عند النسائي في سننه الصغري، وسنده صحيح.»

حدیث نمبر: 343
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إن الله يحب أن تؤتى رخصه كما يكره أن تؤتى معصيته» ‏‏‏‏ رواه أحمد وصححه ابن خزيمة وابن حبان وفي رواية:«‏‏‏‏كما يحب أن تؤتى عزائمه» .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ اسی طرح پسند ہے کہ جن کاموں میں اس نے رخصت عنایت فرمائی ہے، ان میں رخصت پر عمل کیا جائے، جس طرح اسے یہ ناپسند ہے کہ معصیت والے کاموں کو کیا جائے۔
اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کہ اس کے تاکیدی احکام (فرائض) کو ادا کیا جائے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 343]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 2 /108، وابن حبان (الموارد)، حديث:545، وابن خزيمة: 2 /73، حديث:950، 2027.»

حدیث نمبر: 344
وعن أنس رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا خرج مسيرة ثلاثة أميال أو فراسخ صلى ركعتين. رواه مسلم.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر، سفر کے لئے تشریف لے جاتے تو دو رکعتیں (نماز قصر) ادا فرماتے تھے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 344]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين، حديث:691.»

حدیث نمبر: 345
وعنه رضي الله عنه قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من المدينة إلى مكة،‏‏‏‏ فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة. متفق عليه واللفظ للبخاري.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپسی تک دو، دو رکعتیں ہی ادا فرماتے رہے۔ (بخاری و مسلم) البتہ متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 345]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب ما جاء في التقصير، حديث:1081، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين، حديث:693.»

حدیث نمبر: 346
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: أقام النبي صلى الله عليه وآله وسلم تسعة عشر يقصر. وفي لفظ:" بمكة تسعة عشر يوما". رواه البخاري. وفي رواية لأبي داود:" سبع عشرة". وفي أخرى:" خمس عشرة". وله عن عمران بن حصين رضي الله عنهما:" ثماني عشرة". وله عن جابر رضي الله عنه:" أقام بتبوك عشرين يوما يقصر الصلاة." ورواته ثقات إلا أنه اختلف في وصله.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس روز قیام فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصر ہی فرماتے رہے اور ایک روایت میں ہے کہ مکہ میں انیس روز قیام فرمایا۔ (بخاری) اور ابوداؤد کی روایت میں سترہ روز ہے اور ایک دوسری روایت میں پندرہ روز ہے۔ اور ابوداؤد میں ہی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدت قیام اٹھارہ دن تھی اور انہیں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا اور نماز قصر ادا کرتے رہے، اس روایت کے راوی ثقہ ہیں، مگر اس کے موصول ہونے میں اختلاف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 346]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب ما جاء في التقصير، حديث:1080، وأبوداود، صلاة السفر، حديث:1230-1232، وحديث عمران أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1229 وهو حديث حسن، وحديث جابر أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1235 وهو حديث صحيح.»

حدیث نمبر: 347
وعن أنس رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع بينهما فإن زاغت الشمس قبل أن يرتحل صلى الظهر ثم ركب. متفق عليه. وفي رواية الحاكم في الأربعين بإسناد الصحيح:" صلى الظهر والعصر ثم ركب". ولأبي نعيم في مستخرج مسلم: كان إذا كان في سفر فزالت الشمس صلى الظهر والعصر جميعا ثم ارتحل.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب زوال آفتاب سے پہلے سفر کا آغاز فرماتے تو ظہر کی نماز کو عصر کی نماز تک مؤخر کر لیتے تھے۔ پھر سواری سے نیچے تشریف لاتے اور ظہر و عصر دونوں نمازوں کو اکٹھا ادا فرماتے اور جب آفتاب آغاز سفر سے پہلے زوال پذیر ہو جاتا تو پھر نماز ظہر ادا فرما کر سوار ہو کر سفر پر روانہ ہوتے۔ (بخاری و مسلم)
اور حاکم کی اربعین میں سند صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کی نمازیں پڑھیں پھر سواری پر سوار ہوئے۔ ابونعیم کی مستخرج میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ہوتے اور آفتاب زوال پذیر ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر دونوں اکٹھی ادا فرما کر وہاں سے کوچ کرتے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 347]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب يؤخر الظهر إلي العصر إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس، حديث: 1111، ومسلم، صلاة المسافرين، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر، حديث:704، وأبو نعيم في المستخرج:2 /294.»

حدیث نمبر: 348
وعن معاذ رضي الله عنه قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في غزوة تبوك فكان يصلي الظهر والعصر جميعا والمغرب والعشاء جميعا. رواه مسلم.
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھتے اور مغرب و عشاء اکٹھی پڑھتے تھے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 348]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب الجمع بين الصلاتين في الحضر، حديث:706.»

حدیث نمبر: 349
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا تقصروا الصلاة في أقل من أربعة برد من مكة إلى عسفان» .‏‏‏‏ رواه الدارقطني بإسناد ضعيف. والصحيح أنه موقوف كذا أخرجه ابن خزيمة.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار برد سے کم فاصلہ پر نماز قصر نہ کرو (چار برد) مکہ سے عسفان تک فاصلہ ہے۔
اسے دارقطنی نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔ ابن خزیمہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 349]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدار قطني:1 /387.* فيه عبدالوهاب بن مجاهد وهو متروك متهم، وقول ابن عباس علي غير لفظ الكتاب فليتنبه.»

حدیث نمبر: 350
وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏خير أمتي الذين إذا أساءوا استغفروا وإذا أحسنوا استبشروا وإذا سافروا قصروا وأفطروا» . أخرجه الطبراني في الأوسط بإسناد ضعيف،‏‏‏‏ وهو في مراسيل سعيد بن المسيب عند البيهقي مختصرا.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جو برائیاں کر کے بخشش کے طلبگار ہوتے ہیں اور جب سفر پر ہوتے ہیں تو نماز قصر کا اہتمام کرتے ہیں اور روزہ نہیں رکھتے۔
اسے طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ اپنی اوسط میں روایت کیا ہے اور یہ بیہقی کے ہاں مختصراً سعید بن مسیب کی مراسیل سے ہے۔ بیہقی نے اسے مختصر بیان کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 350]
تخریج الحدیث: «أخرجه الطبراني في الأوسط:7 /286، حديث:6554.* ابن لهيعة وأبوالزبير مدلسان وعنعنا.»

حدیث نمبر: 351
وعن عمران بن حصين رضي الله عنهما قال: كانت بي بواسير فسألت النبي صلى الله عليه وآله وسلم عن الصلاة فقال: «‏‏‏‏صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلى جنب» .‏‏‏‏ رواه البخاري.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا۔ اس صورت میں میں نے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھنے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کھڑے ہو کر پڑھو اگر کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکو تو بیٹھ کر پڑھو اور اس کی بھی طاقت و استطاعت نہ ہو تو پھر پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 351]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب إذا لم يطق قاعدًا صلي علي جنب، حديث:1117.»

حدیث نمبر: 352
وعن جابر رضي الله عنه قال: عاد النبي صلى الله عليه وآله وسلم مريضا فرآه يصلي على وسادة فرمى بها وقال: «‏‏‏‏صل على الأرض إن استطعت وإلا فأوم إيماء واجعل سجودك أخفض من ركوعك» .‏‏‏‏ رواه البيهقي وصحح أبو حاتم وقفه.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مریض کی عیادت فرمائی تو دیکھا کہ وہ تکیہ پر نماز پڑھ رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تکیہ دور پھینک دیا اور فرمایا کہ زمین پر نماز پڑھ اگر تمہارے بس میں ہے ورنہ سر کے اشارے سے پڑھ لے۔ اور اپنے سجدوں کو اپنے رکوع سے نیچے کرو۔ (یعنی سجدہ میں رکوع کی نسبت زیادہ جھکو)۔
بیہقی نے اسے روایت کیا ہے اور ابوحاتم نے اس کے موقوف ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 352]
تخریج الحدیث: «تقدم261.»

حدیث نمبر: 353
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: رأيت النبي صلى الله عليه وآله وسلم يصلي متربعا. رواه النسائي وصححه الحاكم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو «متربعا» (چارزانو) ہو کر نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اسے نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 353]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي، قيام الليل، باب كيف صلاة القاعد، حديث:1662، والحاكم:1 /258.* حفص بن غياث عنعن، وحديث البخاري يخالفه، ولو صح لكان محمولًا علي العذر.»