الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:


بلوغ المرام
كتاب الحج
حج کے مسائل
5. باب صفة الحج ودخول مكة
5. حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان
حدیث نمبر: 607
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حج فخرجنا معه حتى إذا أتينا ذا الحليفة فولدت أسماء بنت عميس فقال: «اغتسلي واستثفري بثوب وأحرمي» ‏‏‏‏ وصلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في المسجد ثم ركب القصواء حتى إذا استوت به على البيداء أهل بالتوحيد «‏‏‏‏لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» ‏‏‏‏ حتى إذا أتينا البيت استلم الركن فرمل ثلاثا ومشى أربعا ثم نفر إلى مقام إبراهيم فصلى ثم رجع إلى الركن فاستلمه ثم خرج من الباب إلى الصفا فلما دنا من الصفا قرأ «‏‏‏‏أبدأ بما بدأ الله به» ‏‏‏‏ فرقى الصفا حتى رأى البيت فاستقبل القبلة فوحد الله وكبره وقال: «‏‏‏‏لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده» ‏‏‏‏ ثم دعا بين ذلك ثلاث مرات ثم نزل إلى المروة حتى إذا انصبت قدماه في بطن الوادي سعى حتى إذا صعدتا مشى حتى أتى المروة ففعل على المروة كما فعل على الصفا فذكر الحديث وفيه: فلما كان يوم التروية توجهوا إلى منى فأهلوا بالحج وركب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فصلى بها الظهر والعصر والمغرب والعشاء والفجر ثم مكث قليلا حتى طلعت الشمس فأجاز حتى أتى عرفة فوجد القبة قد ضربت له بنمرة فنزل بها حتى إذا زاغت الشمس أمر بالقصواء فرحلت له فأتى بطن الوادي فخطب الناس ثم أذن ثم أقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ولم يصل بينهما شيئا ثم ركب حتى أتى الموقف فجعل بطن ناقته القصواء إلى الصخرات وجعل حبل المشاة بين يديه واستقبل القبلة فلم يزل واقفا حتى غربت الشمس وذهبت الصفرة قليلا حتى غاب القرص ودفع وقد شنق للقصواء الزمام حتى إن رأسها ليصيب مورك رحله ويقول بيده اليمنى: «‏‏‏‏أيها الناس السكينة السكينة» ‏‏‏‏ كلما أتى حبلا من الحبال أرخى لها قليلا حتى تصعد حتى أتى المزدلفة فصلى بها المغرب والعشاء بأذان واحد وإقامتين ولم يسبح بينهما شيئا ثم اضطجع حتى طلع الفجر فصلى الفجر حين تبين له الصبح بأذان وإقامة ثم ركب القصواء حتى أتى المشعر الحرام فاستقبل القبلة فدعا وكبر وهلل فلم يزل واقفا حتى أسفر جدا فدفع قبل أن تطلع الشمس حتى أتى بطن محسر فحرك قليلا ثم سلك الطريق الوسطى التي تخرج على الجمرة الكبرى حتى أتى الجمرة التي عند الشجرة فرماها بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة منها مثل حصى الخذف رمى من بطن الوادي ثم انصرف إلى المنحر فنحر ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأفاض إلى البيت فصلى بمكة الظهر. رواه مسلم مطولا.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ہم ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے بچہ جنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غسل کر اور کسی کپڑے سے لنگوٹ باندھ لے اور احرام باندھ لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی اور قصواء (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام) پر سوار ہو گئے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیداء کے برابر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحیدی تلبیہ پکارا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» حاضر ہوں، اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بلا شک سب تعریفیں اور انعامات تیرے ہیں۔ بادشاہت بھی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔ یہاں تک کہ ہم بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ رکن (اسود) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسہ دیا، تین بار رمل کیا اور چار بار معمول کے مطابق چلے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم پر آئے اور نماز پڑھی پھر رکن (حجر اسود) کی طرف واپس آئے اور اس کو بوسہ دیا۔ پھر مسجد الحرام کے دروازہ سے صفا کی طرف نکلے جب صفا کے نزدیک پہنچے تو یہ آیت پڑھی۔ تحقیق صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ (پھر فرمایا) میں شروع کرتا ہوں (سعی کو) اس مقام سے کہ جہاں سے اللہ نے شروع کیا ہے۔ پھر صفا پر چڑھے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کو دیکھا۔ پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی وحدانیت اور کبریائی بیان کی اور کہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔ بادشاہی اور سب خوبیاں اسی کی ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور کفار کی جماعت کو اکیلے اسی نے شکست دی۔ پھر اس کے درمیان تین بار دعا کی۔ پھر صفا سے اترے اور مروہ کی طرف گئے۔ یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں وادی کے نشیب میں پڑے تو دوڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نشیب سے اوپر چڑھے اور مروہ کی طرف چلے۔ مروہ پر وہی کچھ کیا جو صفا پر کیا تھا۔ پھر جابر رضی اللہ عنہ نے ساری حدیث بیان کی جس میں یہ ہے کہ جب ترویہ کا دن (8 ذی الحج) ہوا تو لوگ منیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے پھر وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نماز پڑھی۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج نکل آیا تو وہاں سے روانہ ہوئے اور مزدلفہ سے گزرتے ہوئے عرفات میں پہنچے تو خیمہ میں اترے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے نمرہ میں لگایا گیا تھا۔ پھر جب سورج ڈھلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصواء پر پالان رکھنے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر وادی کے درمیان میں آئے اور لوگوں کو خطبہ دیا پھر اذان دلوائی پھر اقامت کہلوائی تو نماز ظہر ادا کی پھر اقامت کہلوائی تو عصر کی نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھی۔ پھر سوار ہو کر ٹھہرنے کی جگہ پر پہنچے تو اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ پتھروں کی طرف کر دیا اور راہ چلنے والوں کو اپنے سامنے کر لیا اور اپنا رخ قبلہ کی جانب کر لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک ٹھہرے رہے کہ سورج غروب ہونے لگا اور تھوڑی سی زردی ختم ہو گئی حتیٰ کہ سورج مکمل طور پر غروب ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں واپس ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصواء کی باگ اتنی تنگ کر رکھی تھی کہ اس کا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پالان کے اگلے ابھرے ہوئے حصے کو پہنچتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داہنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرماتے تھے اے لوگو! تسکین و اطمینان اختیار کرو اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ٹیلے پر آتے تو باگ تھوڑی سی ڈھیلی کر دیتے کہ وہ اوپر چڑھ جاتی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ تشریف لائے اور وہاں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی۔ پھر لیٹ گئے۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ جب صبح کا وقت ظاہر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان اور اقامت سے فجر کی نماز پڑھی۔ پھر سوار ہو کر مشعر حرام پر آئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رو ہوئے دعا کی اور تکبیر و تہلیل کہتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اچھی طرح سفیدی ظاہر ہونے تک ٹھہرے رہے پھر سورج نکلنے سے پہلے واپس ہو کر وادی محسر کے نشیب میں آ گئے تو سواری کو کچھ تیز کر دیا۔ پھر درمیانی راستہ پر چلے جو جمرہ کبریٰ (بڑا شیطان) پر پہنچتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جمرہ پر آئے جو درخت کے پاس ہے تو اسے سات کنکریاں وادی کے نشیب سے ماریں، ہر کنکری کے ساتھ «الله اكبر» کہتے تھے، ان میں سے ہر کنکری خذف (لوبیے کے دانے) کے برابر تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربان گاہ کی طرف گئے اور وہاں قربانی کی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے۔ پھر مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی۔ اسے مسلم نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 607]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب حجة النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:1218.»

حدیث نمبر: 608
وعن خزيمة بن ثابت رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان إذا فرغ من تلبيته في حج أو عمرة سأل الله رضوانه والجنة واستعاذ برحمته من النار. رواه الشافعي بإسناد ضعيف.
سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حج یا عمرہ میں تلبیہ (یعنی لبیک) کہنے سے فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی رضامندی اور جنت طلب کرتے اور اس کی رحمت کے ساتھ آگ سے پناہ مانگتے۔ اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 608]
تخریج الحدیث: «أخرجه الشافعي في الأم:2 /157 عن إبراهيم بن محمد الأسلمي عن صالح بن محمد بن زائدة عن عمارة بن خزيمة عن أبيه به. * إبراهيم متروك وشيخه منكر الحديث كما قال البخاري رحمه الله.»

حدیث نمبر: 609
وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏نحرت هاهنا ومنى كلها منحر فانحروا في رحالكم ووقفت هاهنا وعرفة كلها موقف ووقفت ههنا وجمع كلها موقف» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے قربانی اس جگہ کی ہے، مگر منی سارے کا سارا قربان گاہ ہے۔ لہذا تم اپنے اپنے ٹھہرنے کے مقامات پر قربانی کر دو اور میں نے اس جگہ قیام کیا ہے مگر عرفات کا سارا میدان جائے قیام ہے اور میں نے یہاں قیام کیا مگر مزدلفہ سارا جائے قیام ہے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 609]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب ما جاء أن عرفة كلها موقف، حديث:149-(1218).»

حدیث نمبر: 610
وعن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم لما جاء إلى مكة دخلها من أعلاها وخرج من أسفلها.متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کے لیے مکہ میں داخل ہوئے تو اس موقع پر مکہ کی بالائی جانب سے داخل ہوئے اور جب واپس جانے کے لیے مکہ سے نکلے تو زیریں حصے سے نکلے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 610]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب من أين يخرج من مكة، حديث:1578، ومسلم، الحج، باب استحباب دخول مكة من الثنية العليا، حديث:1258.»

حدیث نمبر: 611
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أنه كان لا يقدم مكة إلا بات بذى طوى حتى يصبح ويغتسل ويذكر ذلك عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم. متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ جب بھی مکہ میں آتے تو ذی طویٰ میں صبح تک شب بسر کرتے اور غسل کرتے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کیا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 611]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب الاغتسال عند دخول مكة، حديث:1573، ومسلم، الحج، باب استحباب الميت بذي طوي، حديث:1259.»

حدیث نمبر: 612
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أنه كان يقبل الحجر الأسود ويسجد عليه. رواه الحاكم مرفوعا والبيهفي موقوفا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ حجر اسود کو بوسہ دیتے اور اس کے سامنے سجدہ کرتے۔ اسے حاکم نے مرفوع اور بیہقی نے موقوف روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 612]
تخریج الحدیث: «أخرجه الحاكم:1 /455 وصححه، ووافقه الذهبي، والدارقطني:2 /289، والمرفوع والموقوف صحيحان كلاهما.»

حدیث نمبر: 613
وعنه رضي الله عنه قال: أمرهم النبي صلى الله عليه وآله وسلم أن يرملوا ثلاثة أشواط ويمشوا أربعا ما بين الركنين. متفق عليه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان چار چکر عام معمول کے مطابق چل کر لگائیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 613]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب كيف بدء الرمل، حديث:1602، ومسلم، الحج، باب استحباب الرمل في الطواف والعمرة، حديث:1264.»

حدیث نمبر: 614
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أنه كان إذا طاف بالبيت الطواف الأول خب ثلاثا ومشى أربعا. وفي رواية: رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا طاف في الحج أو العمرة أول ما يقدم فإنه يسعى ثلاثة أطواف بالبيت ويمشي أربعة. متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب بھی بیت اللہ کا طواف قدوم (پہلا طواف) کرتے تو اس کے پہلے تین چکروں میں پہلوانوں کی سی چال چلتے اور (باقی) چار میں آہستہ چلتے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں) میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج یا عمرہ کے لئے بھی جب طواف قدوم کیا تو اس کے پہلے تین چکر دوڑ کر لگائے اور باقی چار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آہستہ چال چلتے۔ (متفق علیہ) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 614]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب استلام الحجر الأسود، حديث:1603، ومسلم، الحج، باب استحباب الرمل في الطواف والعمرة، حديث:1261.»

حدیث نمبر: 615
وعنه رضي الله عنه قال: لم أر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يستلم من البيت غير الركنين اليمانيين. رواه مسلم.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی اس کے راوی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے دونوں یمانی رکنوں کے بیت اللہ کے کسی رکن کو چھوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 615]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب استحباب استلام الركنين اليمنانيين في الطواف، حديث:1269.»

حدیث نمبر: 616
وعن عمر رضي الله عنه: أنه قبل الحجر وقال: إني أعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقبلك ما قبلتك. متفق عليه.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو پتھر ہے کسی قسم کے نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 616]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب ما ذكر في الحجر الأسود، حديث:1597، ومسلم، الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود في الطواف، حديث:1270.»

حدیث نمبر: 617
وعن أبي الطفيل قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يطوف بالبيت ويستلم الركن بمحجن معه ويقبل المحجن. رواه مسلم.
سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ کا طواف کرتے دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوکیلے سرے والی چھڑی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، (اس) سے حجر اسود کو چھوتے اور اس چھڑی کو بوسہ دیتے تھے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 617]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب جواز الطواف علي بعير وغيره، حديث:1275.»

حدیث نمبر: 618
وعن يعلى بن أمية قال: طاف رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم مضطبعا ببرد أخضر. رواه الخمسة إلا النسائي وصححه الترمذي.
سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سبز چادر میں طواف کیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ اسے نسائی کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 618]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب الاضطباع في الطواف، حديث:1883، والترمذي، الحج، حديث:859، وابن ماجه، المناسك، حديث:2954، وأحمد:4 /224. ابن جريج والثوري مدلسان وعنعنا.»

حدیث نمبر: 619
وعن أنس رضي الله عنه قال: كان يهل منا المهل فلا ينكر عليه ويكبر منا المكبر فلا ينكر عليه. متفق عليه.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ «لا إله إلا الله» کہتے تھے، اسے بھی برا نہیں سمجھا جاتا تھا اور بعض ہم میں سے تکبیریں کہتے تھے ان کو بھی برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 619]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب التلبية والتكبير إذا غدا من مني إلي عرفة، حديث:1659، ومسلم، الحج، باب التلبية والتكبير في الذهاب من مني إلي عرفات في يوم عرفة، حديث:1285.»

حدیث نمبر: 620
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الثقل, أو قال في الضعفة من جمع () بليل. متفق عليه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافروں کے سامان کے ساتھ (یا فرمایا) کہ کمزوروں کے ساتھ رات ہی کو مزدلفہ سے (منیٰ کی جانب) بھیج دیا تھا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 620]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب من قدم ضعفة أهله بليل.....، حديث:1677، ومسلم، الحج، باب استحباب تقديم دفع الضعفة من النساء وغير هن من مزدلفة إلي مني...، حديث:1293.»

حدیث نمبر: 621
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: استأذنت سودة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ليلة المزدلفة أن تدفع قبله وكانت ثبطة تعني ثقيلة فأذن لها. متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے مزدلفہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے واپس آ جائیں (یہ اجازت انہوں نے اس لئے طلب کی) کہ بھاری جسم والی تھیں۔ (اس وجہ سے آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر چلتی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 621]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب من قدم ضعفة أهله بليل....، حديث:1681، ومسلم، الحج، باب استحباب تقديم دفع الضعفة من النساء وغيرهن من مذدلفة إلي مني...، حديث:1290.»

حدیث نمبر: 622
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس» .‏‏‏‏ رواه الخمسة إلا النسائي وفيه انقطاع.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ طلوع آفتاب سے پہلے کنکریاں نہ مارو۔ اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے اس کی سند میں انقطاع ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 622]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب التعجيل من جمع، حديث:1940، والترمذي، الحج، حديث:893، وابن ماجه، المناسك، حديث:3025، وأحمد:1 /234، 277 "الحسن العريني أرسل عن ابن عباس" كما في التقريب (1252)، وللحديث شواهد ضعيفة.»

حدیث نمبر: 623
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: أرسل النبي صلى الله عليه وآله وسلم بأم سلمة ليلة النحر فرمت الجمرة قبل الفجر ثم مضت فأفاضت.رواه أبو داود وإسناده على شرط مسلم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو قربانی والی رات پہلے بھیج دیا تھا۔ انہوں نے فجر کے طلوع ہونے سے پہلے کنکریاں ماریں پھر جا کر طواف افاضہ کیا۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 623]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب التعجيل من جمع، حديث:1942.»

حدیث نمبر: 624
وعن عروة بن مضرس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من شهد صلاتنا هذه يعني بالمزدلفة فوقف معنا حتى ندفع وقد وقف بعرفة قبل ذلك ليلا أو نهارا فقد تم حجه وقضى تفثه» .‏‏‏‏ رواه الخمسة وصححه الترمذي وابن خزيمة.
سیدنا عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی مزدلفہ میں ہماری نماز میں شامل ہوا اور ہمارے ساتھ وقوف کیا یہاں تک کہ ہم نے کوچ کیا اور اس سے قبل عرفات میں رات یا دن میں قیام کر چکا ہو تو اس کا حج مکمل ہو گیا اور اس نے اپنی میل کچیل اتار لی۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے ترمذی اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 624]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب من لم يدرك عرفة، حديث:1950، والترمذي، الحج، حديث:891، والنسائي، مناسك الحج، حديث:3042، وابن ماجه، المناسك، حديث:3016، وأحمد:4 /261، وابن خزيمة:4 /256، وابن حبان(الإحسان):6 /61، حديث:3839، 3840، والحاكم:1 /463 وصححه، ووافقه الذهبي.»

حدیث نمبر: 625
وعن عمر رضي عنه قال: إن المشركين كانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس ويقولون: أشرق ثبير وإن النبي صلى الله عليه وآله وسلم خالفهم فأفاض قبل أن تطلع الشمس. رواه البخاري.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مشرکین طلوع آفتاب کے بعد واپس لوٹتے تھے اور کہتے تھے، ثبیر (ایک پہاڑ کا نام) روشن ہو گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی اور طلوع آفتاب سے پہلے تشریف لے آئے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 625]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب متي يدفع من جمع، حديث:1684.»

حدیث نمبر: 626
وعن ابن عباس وأسامة بن زيد رضي الله عنهم قالا: لم يزل للنبي صلى الله عليه وآله وسلم يلبي حتى رمى جمرة العقبة. رواه البخاري.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما دونوں سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ (چھوٹا شیطان) کو کنکری مارنے تک تلبیہ کہتے رہے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 626]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب التلبية والتكبير غداة النحر، حديث:1685.»

حدیث نمبر: 627
وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه: أنه جعل البيت عن يساره ومني عن يمينه ورمى الجمرة بسبع حصيات وقال: هذا مقام الذي أنزلت عليه سورة البقرة. متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو اپنی بائیں جانب اور منٰی کو اپنی دائیں جانب رکھا اور جمرہ کو سات سنگریزے مارے اور فرمایا کہ یہ ان ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جن پر سورۃ «البقره» کا نزول ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 627]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب رمي الجمار بسبع حصيات، حديث:1748، ومسلم، الحج، باب رمي جمرة العقبة من بطن الوادي، حديث:1296.»

حدیث نمبر: 628
وعن جابر رضي الله عنه قال: رمى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الجمرة يوم النحر ضحى وأما بعد ذلك فإذا زالت الشمس. رواه مسلم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو قربانی کے روز چاشت کے وقت کنکریاں ماریں اور اس روز کے بعد آفتاب ڈھلنے کے بعد۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 628]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب بيان وقت استحباب الرمي، حديث:1299.»

حدیث نمبر: 629
وعن ابن عمر رضي الله عنهما: أنه كان يرمي الجمرة الدنيا بسبع حصيات يكبر على إثر كل حصاة ثم يتقدم حتى يسهل فيقوم مستقبل القبلة ثم يدعو ويرفع يديه ويقوم طويلا ثم يرمي الوسطى ثم يأخذ ذات الشمال فيسهل ويقوم مستقبل القبلة ثم يدعو فيرفع يديه ويقوم طويلا ثم يرمي جمرة ذات العقبة من بطن الوادي ولا يقف عندها ثم ينصرف فيقول: هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يفعله. رواه البخاري.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ سب سے قریبی جمرہ کو سات سنگریزے مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہتے۔ پھر آگے تشریف لے جاتے اور میدان میں آ کر کھڑے ہو جاتے اور قبلہ رخ ہو کر طویل قیام فرماتے اور اپنے ہاتھ اوپر اٹھا کر دعا کرتے۔ پھر جمرہ وسطی (درمیانہ شیطان) کو کنکریاں مارتے۔ پھر بائیں جانب ہو جاتے اور میدان میں آ کر قبلہ رخ کھڑے ہو جاتے۔ پھر اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے اور دعا فرماتے اور طویل قیام فرماتے۔ اس کے بعد جمرہ عقبہ کو کنکریاں وادی کی نچلی جگہ سے مارتے مگر وہاں قیام نہ فرماتے۔ پھر واپس تشریف لے آتے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح عمل کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 629]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب إذا رمي الجمرتين يقوم مستقبل القبلة ويسهل، حديث:1751.»

حدیث نمبر: 630
وعنه رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «اللهم ارحم المحلقين» قالوا:والمقصرين يا رسول الله؟قال في الثالثة:«‏‏‏‏والمقصرين» . متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی یہ حدیث بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الٰہی سر منڈانے والے حاجیوں پر رحم فرما صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! بال ترشوانے والے پر بھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا بال ترشوانے والوں پر بھی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 630]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب الحلق والتقصير عند الإحلال، حديث:1728، ومسلم، الحج، باب تفضيل الحلق علي التقصير...، حديث:1301.»

حدیث نمبر: 631
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وقف في حجة الوداع فجعلوا يسألونه فقال رجل: لم أشعر فحلقت قبل أن أذبح؟ قال: «‏‏‏‏اذبح ولا حرج» ‏‏‏‏ فجاء آخر فقال: لم أشعر فنحرت قبل أن أرمي؟ قال: «‏‏‏‏ارم ولا حرج» ‏‏‏‏ فما سئل يومئذ عن شيء قدم ولا أخر إلا قال: «‏‏‏‏افعل ولا حرج» . متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے شروع کیے۔ کسی نے کہا کہ مجھے علم نہیں تھا اور میں نے قربانی سے پہلے حجامت بنوا لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا قربانی کرو، کوئی حرج نہیں اور ایک آدمی نے عرض کیا مجھے معلوم نہیں تھا اور میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا اب کنکریاں مار لے، کوئی حرج نہیں اس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عمل کے مقدم و مؤخر کرنے کے متعلق استفسار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 631]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب الفتيا علي الدابة عند الجمرة، حديث:1738، ومسلم، الحج، باب جواز تقديم الذبح علي الرمي....، حديث:1306.»

حدیث نمبر: 632
وعن المسور بن مخرمة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نحر قبل أن يحلق وأمر أصحابه بذلك. رواه البخاري.
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی حجامت کرانے سے پہلے کی اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 632]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المحصر، باب النحر قبل الحلق في الحصر، حديث:1812.»

حدیث نمبر: 633
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا رميتم وحلقتم فقد حل لكم الطيب وكل شيء إلا النساء» .‏‏‏‏ رواه أحمد وأبو داود وفي إسناده ضعف.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کنکریاں مار چکو اور سر کے بال منڈوا لو تو تمہارے لیے خوشبو اور بیویوں کے علاوہ ہر چیز حلال ہو گئی۔ اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا اور اس کی سند میں ضعف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 633]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:6 /143، وأبوداود، المناسك، حديث:1978، وابن خزيمة، حديث:2937، حجاج بن أرطاه ضعيف مدلس، وللحديث شواهد ضعيفة.»

حدیث نمبر: 634
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏ليس على النساء حلق وإنما يقصرن» .‏‏‏‏ رواه أبو داود بإسناد حسن.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے لیے منڈوانا نہیں بلکہ ان کے لیے صرف بال ترشوانا ہے۔ اسے ابوداؤد نے حسن سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 634]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب الحلق والتقصير، حديث:1985.»

حدیث نمبر: 635
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه استأذن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن يبيت بمكة ليالي منى من أجل سقايته فأذن له.متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ منٰی والی راتیں مکہ میں کاٹیں تاکہ وہ آب زمزم پلا سکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دیدے دی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 635]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب سقاية الحاج، حديث:1634، ومسلم، الحج، باب وجوب المبيت بمني ليالي أيام التشريق، حديث:1315.»

حدیث نمبر: 636
وعن عاصم بن عدي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أرخص لرعاة الإبل في البيتوته عن منى يرمون يوم النحر،‏‏‏‏ ثم يرمون الغد ومن بعد الغد ليومين،‏‏‏‏ ثم يرمون يوم النفر.رواه الخمسة وصححه الترمذي وابن حبان.
سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے چرواہوں کو منی سے باہر رات گزارنے کی اجازت دے دی کہ قربانی کے دن کنکریاں ماریں پھر دوسرے اور تیسرے دو روز بھی کنکریاں ماریں پھر کوچ کے سنگریزے ماریں۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 636]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب في رمي الجمار، حديث:1975، والترمذي، الحج، حديث:955، والنسائي، مناسك الحج، حديث:3071، وابن ماجه، المناسك، حديث:3037، وأحمد:5 /450، وابن حبان (موارد):1015.»

حدیث نمبر: 637
وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم النحر،‏‏‏‏ الحديث. متفق عليه.
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے روز خطبہ دیا اور ساری حدیث ذکر کی۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 637]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب الخطبة أيام مني، حديث:1741، ومسلم، القسامة، باب تغليظ تحريم الدماء والأعراض والأموال، حديث:1679.»

حدیث نمبر: 638
وعن سراء بنت نبهان رضي الله عنها قالت: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم الرؤوس فقال: «‏‏‏‏أليس هذا أوسط أيام التشريق؟» ‏‏‏‏ الحديث. رواه أبو داود بإسناد حسن.
سیدہ سراء بنت نبھان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سروں والے دن خطاب فرمایا اور فرمایا کیا یہ دن ایام تشریق کا درمیانہ دن نہیں ہے؟ اور ساری حدیث ذکر کی۔ اسے ابوداؤد نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 638]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب أي يوم يخطب بمني، حديث:1953.»

حدیث نمبر: 639
وعن عائشة رضي الله عنها: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال لها: «‏‏‏‏طوافك بالبيت وسعيك بين الصفا والمروة يكفيك لحجك وعمرتك» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تیرا بیت اللہ کا طواف کر لینا صفا اور مروہ کے مابین سعی کر لینا حج اور عمرے کے لئے کافی ہے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 639]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب بيان وجوه الإحرام....، حديث:132، 133-(1211).»

حدیث نمبر: 640
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم لم يرمل في السبع الذي أفاض فيه. رواه الخمسة إلا الترمذي وصححه الحاكم.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ میں طواف کے سات چکروں (پھیروں) میں کسی چکر میں بھی رمل نہیں فرمایا۔ اسے ترمذی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 640]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب الإفاضة في الحج، حديث:2001، وابن ماجه، المناسك، حديث:3060، أحمد: لم أجده، والنسائي في الكبرٰي:2 /461، حديث:4170، والحاكم:1 /475 وصححه علي شرط الشيخين، ووافقه الذهبي.»

حدیث نمبر: 641
وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم صلى الظهر والعصر والمغرب والعشاء،‏‏‏‏ ثم رقد رقدة بالمحصب،‏‏‏‏ ثم ركب إلى البيت،‏‏‏‏ فطاف به. رواه البخاري.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بالترتیب اپنے اپنے وقت میں) ظہر اور عصر ‘ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں اور پھر مقام محصب پر تھوڑا سو گئے پھر سوار ہو کر بیت اللہ کی جانب تشریف لے گئے اور طواف کیا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 641]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب من صلي العصريوم النفر بالأبطح، حديث:1763.»

حدیث نمبر: 642
وعن عائشة رضي الله عنها أنها لم تكن تفعل ذلك: - أي النزول بالأبطح- وتقول: إنما نزله رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لأنه كان منزلا أسمح لخروجه. رواه مسلم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ ابطح (محصب) میں فروکش ہونے کا عمل نہیں کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر اس لئے قیام فرمایا تھا کہ یہاں سے واپسی میں آسانی و سہولت زیادہ تھی۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 642]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب استحباب النزول بالمحصب، حديث: 340- (1311).»

حدیث نمبر: 643
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: أمر الناس أن يكون آخرعهدهم بالبيت إلا أنه خفف عن الحائض. متفق عليه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ سب سے آخر میں تمہارا عمل بیت اللہ کا طواف ہو مگر ایام ماہواری والی عورتوں کے لئے تخفیف کر دی گئی ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 643]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب طواف الوداع، حديث:1755، ومسلم، الحج، باب وجوب طواف الوداع وسقوطه عن الحائض، حديث:1328.»

حدیث نمبر: 644
وعن ابن الزبير رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏صلاة في مسجدي هذا،‏‏‏‏ أفضل من ألف صلاة فيما سواه،‏‏‏‏ إلا المسجد الحرام،‏‏‏‏ وصلاة في المسجد الحرام،‏‏‏‏ أفضل من صلاة في مسجدي هذا بمائة صلاة» .‏‏‏‏ رواه أحمد وصححه ابن حبان.
سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اس مسجد (مسجدنبوی) میں ایک نماز ادا کرنے کا ثواب دوسری مساجد میں نماز ادا کرنے کے مقابلہ میں ہزار گنا زیادہ ہے۔ بجز مسجد الحرام کے اور مسجد الحرام میں ایک نماز کی ادائیگی میری اس مسجد میں سو نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 644]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:4 /5، وابن حبان(موارد)، حديث:1027.»