الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:


بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
6. باب التفليس والحجر
6. مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان
حدیث نمبر: 727
عن أبي بكر بن عبد الرحمن عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏من أدرك ماله بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من غيره» .‏‏‏‏ متفق عليه. ورواه أبو داود ومالك من رواية أبي بكر بن عبد الرحمن مرسلا بلفظ:«‏‏‏‏أيما رجل باع متاعا فأفلس الذي ابتاعه ولم يقبض الذي باعه من ثمنه شيئا فوجد متاعه بعينه فهو أحق به فإن مات المشتري فصاحب المتاع أسوة الغرماء» .‏‏‏‏ ووصله البيهقي وضعفه تبعا لأبي داود. ورواه أبو داود وابن ماجه من رواية عمر بن خلدة قال: أتينا أبا هريرة في صاحب لنا قد أفلس فقال: لأقضين فيكم بقضاء رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من أفلس أو مات فوجد رجل متاعه بعينه فهو أحق به» .‏‏‏‏ وصححه الحاكم وضعفه أبو داود وضعف أيضا هذه الزيادة في ذكر الموت.
سیدنا ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص مفلس کے پاس اپنی چیز بعینہ اسی حالت میں پائے تو وہ اس کا دوسرے کی بہ نسبت زیادہ حقدار ہے۔ (بخاری و مسلم) ابوداؤد اور مالک نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے ان الفاظ کے ساتھ مرسل روایت بیان کی ہے کہ کوئی آدمی اگر کوئی چیز بیچے اور خریدنے والا مفلس ہو جائے اور بیچنے والے کو اس کی قیمت میں سے ابھی کچھ بھی نہیں ملا تو (اس صورت میں) اگر وہ بعینہ اپنا مال پا لیتا ہے تو وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے اور اگر خریدار مر جائے تو پھر صاحب مال دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہے۔ بیہقی نے اسے موصول بیان کیا ہے اور ابوداؤد کی اتباع میں اسے ضعیف کہا ہے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اسے عمر بن خلدۃ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ہم اپنے ایک ساتھی کے لئے جو مفلس ہو گیا تھا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا ہی فیصلہ کروں گا (اور وہ یہ تھا کہ) جو کوئی مفلس ہو جائے یا مر جائے اور کوئی آدمی اس کے پاس اپنی چیز بعینہ پا لے تو وہ ہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ابوداؤد نے ضعیف کہا ہے اور اسی طرح ابوداؤد نے اس زیادتی کو جو موت کے ذکر میں ہے، ضعیف کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 727]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الاستقراض، باب إذا وجد ماله عند مفلس، حديث:2402، ومسلم، المساقاة، باب من أدرك ما باعه عند المشتري وقد أفلس، حديث:1559، ورواية أبي بكر بن عبدالرحمن أخرجه أبوداود، البيوع، حديث:3520، ومالك:2 /678، والبهقي:6 /46 وهو حديث صحيح، ورواية، عمر بن خلدة أخرجه أبوداود، البيوع، حديث:3523، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2360، والحاكم:2 /51 وسنده حسن.»

حدیث نمبر: 728
وعن عمرو بن الشريد عن أبيه رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لي الواجد يحل عرضه وعقوبته» .‏‏‏‏ رواه أبو داود والنسائي وعلقه البخاري وصححه ابن حبان.
سیدنا عمرو بن شرید رحمہ اللہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مالدار آدمی کا ادائیگی قرض میں ٹال مٹول کرنا، اس کی بے عزتی اور سزا دینے کو حلال کرنا ہے۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور بخاری نے اسے تعلیق کے طور پر نقل کیا ہے اور ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 728]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب في الدين هل يحبس به، حديث:3628، والنسائي، البيوع، حديث:4693، 4694، والبخاري، الاستقراض، قبل حديث:2401، وابن حبان (الموارد)، حديث:1164.»

حدیث نمبر: 729
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: أصيب رجل في عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في ثمار ابتاعها فكثر دينه فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏تصدقوا عليه» ‏‏‏‏ فتصدق الناس عليه ولم يبلغ ذلك وفاء دينه فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لغرمائه:«‏‏‏‏خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک آدمی کو پھلوں کی تجارت میں (کافی) نقصان ہوا جس وجہ سے اس پر قرض کا بار بہت زیادہ ہو گیا حتیٰ کہ کنگال ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر صدقہ کرو۔ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا، مگر وہ صدقہ اتنا نہیں تھا کہ قرض پورا ادا ہو جاتا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا (یہی کچھ ہے) جو کچھ ملتا ہے لے لو۔ اس کے علاوہ تمہارے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 729]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساقاة، باب استحباب الوضع من الدين، حديث:1556.»

حدیث نمبر: 730
وعن ابن كعب بن مالك عن أبيه رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حجر على معاذ ماله وباعه في دين كان عليه. رواه الدارقطني وصححه الحاكم وأخرجه أبو داود مرسلا ورجح إرساله.
سیدنا ابن کعب بن مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے مال میں تصرف سے روک دیا تھا اور اس کا مال اس قرض کی رقم کے عوض میں فروخت کر دیا جو اس کے ذمہ تھی۔ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور ابوداؤد نے اسے مرسل روایت کیا ہے اور اس کے مرسل ہونے کو قابل ترجیح ٹھہرایا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 730]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:4 /231، والحاكم:2 /58.* الزهري عنعن.»

حدیث نمبر: 731
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: عرضت على النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم أحد وأنا ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضت عليه يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني. متفق عليه وفي رواية للبيهقي: فلم يجزني ولم يرني بلغت. وصححه ابن خزيمة.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے احد کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس وقت میری عمر چودہ برس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی۔ پھر خندق کے روز مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شرکت کی اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم) اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت نہ دی اور مجھے بالغ نہیں سمجھا۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 731]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الشهادات، باب بلوغ الصبيان وشهادتهم، حديث:2664، ومسلم، الإمارة، باب بيان سن البلوغ، حديث:1868، والبيهقي:3 /83.»

حدیث نمبر: 732
وعن عطية القرظي رضي الله تعالى عنه قال: عرضنا على النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم قريظة فكان من أنبت قتل ومن لم ينبت خلي سبيله فكنت ممن لم ينبت فخلي سبيلي. رواه الخمسة وصححه ابن حبان والحاكم.
سیدنا عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنوقریظہ سے جنگ کے موقع پر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا، جس کے زیر ناف بال اگے ہوتے تھے، اسے قتل کر دیا گیا اور جس کے نہیں اگے تھے اسے چھوڑ دیا گیا۔ میں بھی ان میں سے تھا جس کے بال نہیں اگے تھے، لہٰذا مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 732]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب في الغلام يصيب الحد، حديث:4404، والترمذي، السير، حديث:1584، وقال: حسن صحيح، وابن ماجه، الحدود، حديث:2541، والنسائي، قطع السارق، حديث:4984، وغيره، وأحمد:4 /310، 5 /312، وابن حبان (الإحسان):7 /137، حديث:4760، والحاكم:3 /35، وابن الجارود، حديث:1045.»

حدیث نمبر: 733
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏لا يجوز لامرأة عطية إلا بإذن زوجها» .‏‏‏‏ وفي لفظ: «‏‏‏‏لا يجوز للمرأة أمر في مالها إذا ملك زوجها عصمتها» .‏‏‏‏ رواه أحمد وأصحاب السنن إلا الترمذي وصححه الحاكم.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی عورت کا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں اور ایک روایت میں ہے کہ کسی عورت کو اپنے ذاتی مال میں کوئی معاملہ کرنے کا اختیار نہیں جب اس کا شوہر اس کی عصمت کا مالک ہو۔ اسے احمد اور اصحاب سنن نے ترمذی کے علاوہ روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 733]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في عطية المرأة بغير إذن زوجها، حديث:3547، والنسائي، الزكاة، حديث:2541، وابن ماجه، الصدقات، حديث:2388، وأحمد:2 /179، 184، 207، والحاكم:2 /47.»

حدیث نمبر: 734
وعن قبيصة بن مخارق الهلالي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش ورجل أصابته فاقة حتى يقول ثلاثة من ذوي الحجا من قومه: لقد أصابت فلانا فاقة فحلت له المسألة» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تین آدمیوں میں سے کسی ایک کے سوا کسی دوسرے کے لئے سوال کرنا حلال نہیں۔ ایک وہ آدمی جس نے ضمانت کا بوجھ اٹھایا ہو۔ اس کے لئے تاوان و ضمانت کی مقدار تک سوال کرنا جائز ہے اس کے بعد سوال کرنا چھوڑ دے اور ایک وہ آدمی جسے کوئی آفت پہنچی ہو اور اس نے اس کا مال تباہ و برباد کر دیا ہو اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے تاوقتیکہ اس کے لئے گزران کی کوئی سبیل نکل آئے اور ایک وہ آدمی جو فاقہ میں مبتلا ہو، یہاں تک کہ اس کی شہادت اس کی قوم کے تین قابل اعتماد آدمی دیں۔ اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 734]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الزكاة، باب من تحل له المسألة، حديث:1044.»