الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:


بلوغ المرام
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے مسائل
8. باب الحوالة والضمان
8. ضمانت اور کفالت کا بیان
حدیث نمبر: 738
عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏مطل الغني ظلم وإذا أتبع أحدكم على مليء فليتبع» .‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية لأحمد: «‏‏‏‏ومن أحيل فليحتل» .‏‏‏‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مالدار آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی مالدار کا حوالہ دیا جائے تو اسے قبول کر لینا چاہیئے۔ (بخاری و مسلم) اور احمد کی ایک روایت میں «فليحتل» (حوالہ قبول کر لے) ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 738]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحوالات، باب الحوالة وهل يرجع في الحوالة، حديث:2287، ومسلم، المساقاة، باب تحريم مطل الغني، حديث:1564، وأحمد:2 /463.»

حدیث نمبر: 739
وعن جابر رضي الله تعالى عنه قال: توفي رجل منا فغسلناه وحنطناه وكفناه ثم أتينا به رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقلنا: تصلي عليه؟ فخطى خطا ثم قال:«‏‏‏‏أعليه دين؟» ‏‏‏‏ قلنا: ديناران فانصرف فتحملهما أبو قتادة فأتيناه فقال أبو قتادة: الديناران علي فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏حق الغريم وبرىء منهما الميت؟» ‏‏‏‏ قال: نعم،‏‏‏‏ فصلى عليه. رواه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه ابن حبان والحاكم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی فوت ہو گیا ہم نے اسے غسل دیا، خوشبو لگائی اور کفن پہنایا۔ پھر ہم اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قدم آگے بڑھنے کیلئے اٹھائے اور دریافت فرمایا کہ کیا اس کے ذمہ قرض ہے؟ ہم نے عرض کیا دو دینار تھے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے دو دینار کی ادائیگی اپنے ذمہ لے لی۔ پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا دو دینار میرے ذمہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مقروض کی طرح لازم و حق ہو گیا اور میت اس سے بری الذمہ ہو گئی۔ اس نے کہا کہ ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 739]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في التشديد في الدين، حديث:3343، والنسائي، الجنائز، حديث:1964، وأحمد:3 /330، 5 /297، 304، وابن حبان (الإحسان):5 /25،26، حديث:3048.»

حدیث نمبر: 740
وعن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان يؤتى بالرجل المتوفى عليه الدين فيسأل: «‏‏‏‏هل ترك لدينه من قضاء؟» ‏‏‏‏ فإن حدث أنه ترك وفاء صلى عليه وإلا قال: «‏‏‏‏صلوا على صاحبكم» ‏‏‏‏ فلما فتح الله عليه الفتوح قال:«‏‏‏‏أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم فمن توفي وعليه دين فعلي قضاؤه» .‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية للبخاري: «‏‏‏‏فمن مات ولم يترك وفاء» .‏‏‏‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقروض آدمیوں کے جنازے لائے جاتے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے تھے کہ کیا اس نے قرضہ کی ادائیگی کیلئے کچھ چھوڑا ہے؟ اگر بتایا جاتا کہ اس نے اپنا مال چھوڑا ہے تو اس کی نماز جنازہ پڑھاتے ورنہ فرما دیتے کہ جاؤ تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مومنوں کو ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ لہٰذا اب جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر قرضہ کا بار ہو تو اس قرضہ کی ادائیگی میرے ذمہ ہے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں جو آدمی مر گیا اور اس نے اتنا ترکہ پیچھے نہیں چھوڑا جو قرضہ کی ادائیگی کیلئے کافی ہو۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 740]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، النفقات، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم من ترك كلًّا أو ضياعًا فإلي، حديث:5371، ومسلم، الفرائض، باب من ترك مالاً فلورثته، حديث:1619.»

حدیث نمبر: 741
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا كفالة في حد» .‏‏‏‏ رواه البيهقي بإسناد ضعيف
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی حد میں ضمانت و ذمہ داری نہیں۔ اسے بیہقی نے کمزور سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 741]
تخریج الحدیث: «أخرجه البيهقي:6 /77، وقال: تفرد به بقية عن أبي محمد عمر بن أبي عمر الكلاعي وهو من مشايخ بقية المجهولين ورواياته منكرة.* أبو محمد عمر بن أبي عمر الكلاعي مجهول كما عرفت وبقية عنعن.»