الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:


بلوغ المرام
كتاب الجنايات
جنایات (جرائم) کے مسائل
1. (أحاديث في الجنايات)
1. (جنایات کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 993
عن ابن مسعود رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا يحل دم امرىء مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث: الثيب الزاني والنفس بالنفس والتارك لدينه المفارق للجماعة» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہے جو شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں مگر تین شخص اس سے مستثنیٰ ہیں۔ شادی شدہ زانی اور جان کے بدلہ میں جان اور اپنے دین کو چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 993]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الديات، باب قول الله تعالي:﴿أن النفس بالنفس...﴾، حديث:6878، ومسلم، القسامة، باب ما يباح به دم المسلم، حديث:1676.»

حدیث نمبر: 994
وعن عائشة رضي الله عنها عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏لا يحل قتل مسلم إلا بإحدى ثلاث خصال: زان محصن فيرجم ورجل يقتل مسلما متعمدا فيقتل ورجل يخرج من الإسلام فيحارب الله ورسوله فيقتل أو يصلب أو ينفى من الأرض» ‏‏‏‏ رواه أبو داود والنسائي وصححه الحاكم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان آدمی کا قتل حلال نہیں بجز تین صورتوں میں سے کسی ایک کے۔ شادی شدہ زانی، پس اسے سنگسار کیا جائے اور وہ آدمی جو دیدہ دانستہ کسی مسلمان بھائی کو قتل کرے پس اسے قتل کیا جائے گا اور ایک وہ آدمی جو دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے اور اللہ اور اس کے رسول سے (لڑائی) شروع کر دے۔ پس اسے قتل کیا جائے گا یا سولی دی جائے گی یا اسے جلا وطن کیا جائے گا۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 994]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب الحكم فيمن ارتد، حديث:4353، والنسائي، تحريم الدم، حديث:4021، والحاكم:4 /367.»

حدیث نمبر: 995
وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏أول ما يقضى بين الناس يوم القيامة في الدماء» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز لوگوں کے درمیان سب سے پہلے جن مقدمات کا فیصلہ کیا جائے گا وہ خون کے مقدمات ہوں گے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 995]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الديات، باب قول الله تعالي: ﴿ومن يقتل مؤمنًا متعمدًا فجزاءه جهنم﴾، حديث:6864، ومسلم، القسامة، باب المجازاة بالدماء في الأخرة....، حديث:1678.»

حدیث نمبر: 996
وعن سمرة رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من قتل عبده قتلناه ومن جدع عبده جدعناه» ‏‏‏‏ رواه أحمد والأربعة وحسنه الترمذي وهو من رواية الحسن البصري عن سمرة وقد اختلف في سماعه منه وفي رواية أبي داود والنسائي بزيادة: «‏‏‏‏ومن خصى عبده خصيناه» ‏‏‏‏ وصحح الحاكم هذه الزيادة.
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مالک نے اپنے غلام کو قتل کیا ہم اسے قتل کریں گے اور جس نے اس کا ناک، کان کاٹا ہم اس کا ناک، کان کاٹ دیں گے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ یہ سمرہ سے حسن بصری کی روایت ہے اور سمرہ سے حسن بصری کے سماع میں اختلاف ہے اور ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں ہے کہ جس مالک نے اپنے غلام کو خصی کیا ہم اسے خصی کر دیں گے۔ اس اضافہ کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 996]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الديات، باب من قتل عبده أو مثل به أيقاد منه؟ حديث:4515، والترمذي، الديات، حديث:1414، والنسائي، القسامة، حديث:4740، وابن ماجه، الديات، حديث:2663، وأحمد:5 /10، 11، 12، 18، 19، والحاكم:4 /367.* الحسن البصري عن سمرة كتاب والرواية عن كتاب صحيحةكما في أصول الحديث، بحث الوجادة والمناولة.»

حدیث نمبر: 997
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏لا يقاد الوالد بالولد» ‏‏‏‏ رواه أحمد والترمذي وابن ماجه وصححه ابن الجارود والبيهقي وقال الترمذي: إنه مضطرب.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ اسے احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن جارود اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث میں اضطراب ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 997]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الديات، باب ما جاء في الرجل يقتل ابنه يقاد منه أم لا، حديث:1400، وأحمد:1 /16، 22، وابن ماجه، الديات، حديث:2662، والبيهقي:8 /82، وانظر، التلخيص الحبير(4 /17).»

حدیث نمبر: 998
وعن أبي جحيفة قال: قلت لعلي: هل عندكم شيء من الوحي غير القرآن؟ قال: لا والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إلا فهما يعطيه الله تعالى رجلا في القرآن وما في هذه الصحيفة قلت: وما في هذه الصحيفة؟ قال: العقل وفكاك الأسير وأن لا يقتل مسلم بكافر" رواه البخاري وأخرجه أحمد وأبو داود والنسائي من وجه آخر عن علي رضي الله تعالى عنه وقال فيه:" المؤمنون تتكافأ دماؤهم ويسعى بذمتهم أدناهم وهم يد على من سواهم ولا يقتل مؤمن بكافر ولا ذو عهد في عهده" وصححه الحاكم.
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیا آپ لوگوں کے پاس قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعہ نازل شدہ کوئی اور چیز بھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ نہیں! اس ذات کی قسم! جس نے دانہ و غلہ اگایا اور جان کو پیدا فرمایا سوائے اس فہم کے جسے اللہ تعالیٰ کسی انسان کو قرآن کے بارے میں عطا فرماتا ہے اور جو کچھ اس صحیفہ میں تحریر ہے (میرے پاس کچھ نہیں) میں نے سوال کیا کہ اس صحیفہ میں کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ دیت کے احکام، قیدی کو آزاد کرنے کا حکم اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ (بخاری) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو احمد، ابوداؤد اور نسائی نے ایک دوسری سند سے بیان کیا ہے اور اس میں ہے کہ سب مومنوں کے خون برابر ہیں اور ان میں سے ادنی آدمی کی ذمہ داری کی حیثیت بڑے آدمی کے برابر ہے اور اپنے سوا وہ غیر مسلموں کے مقابلہ میں سب ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہیں اور کوئی مومن کسی کافر کے عوض قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی معاہد (ذمی) کو اس کے زمانہ عہد میں قتل کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 998]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الديات، باب لا يقتل المسلم بالكافر، حديث:6915، وحديث:" المؤمنون تتكافأ دماتهم "أخرجه أبوداود، الديات، حديث:4530، والنسائي، السنة، حديث:4738، وأحمد:1 /119، والحاكم، وهو حديث صحيح.»

حدیث نمبر: 999
وعن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه: أن جارية وجد رأسها قد رض بين حجرين فسألوها: من صنع بك هذا؟ فلان فلان؟ حتى ذكروا يهوديا فأومأت برأسها فأخذ اليهودي فأقر فأمر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن يرض رأسه بين حجرين. متفق عليه واللفظ لمسلم.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ساتھ ایسا کس نے کیا ہے؟ پھر خود ہی کہا کہ فلاں نے، فلاں نے، اس طرح نام لیتے ہوئے ایک یہودی کے نام پر پہنچے تو اس نے سر کے اشارہ سے کہا۔ ہاں! یہودی گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اس جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم میں ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 999]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الديات، باب من أقاد بالحجر، حديث:6879، ومسلم، القسامة، باب ثبوت القصاص في القتل بالحجر...، حديث:1672.»

حدیث نمبر: 1000
وعن عمران بن حصين رضي الله عنه: أن غلاما لأناس فقراء قطع أذن غلام لأناس أغنياء فأتوا النبي صلى الله عليه وآله وسلم فلم يجعل لهم شيئا". رواه أحمد والثلاثة بإسناد صحيح
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فقراء لوگوں کے ایک غلام نے امراء لوگوں کے غلام کا کان کاٹ لیا تو یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے کوئی چیز مقرر نہ فرمائی۔ اسے احمد اور تینوں نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1000]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الديات، باب جناية العبد يكون للفقراء، حديث:4590، والنسائي، القسامة، حديث:4755، وأحمد:4 /438، والترمذي: لم أجده.»

حدیث نمبر: 1001
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهما أن رجلا طعن رجلا بقرن في ركبته فجاء إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: أقدني فقال: «حتى تبرأ» ‏‏‏‏ ثم جاء إليه فقال: أقدني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأقاده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم جاء إليه فقال: يا رسول الله عرجت فقال: «قد نهيتك فعصيتني فأبعدك الله وبطل عرجك» ‏‏‏‏ ثم نهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن يقتص من جرح حتى يبرأ صاحبه. رواه أحمد والدارقطني وأعل بالإرسال.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے والد اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں سینگ چبھو دیا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا مجھے اس سے قصاص لے کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زخم مندمل ہونے کے بعد آنا۔ وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا مجھے قصاص دلوائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قصاص دلوایا اس کے بعد پھر آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول! میں لنگڑا ہو گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تجھے منع کیا تھا لیکن تو نے میری بات نہ مانی۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے دور کر دیا اور تیرے لنگڑے پن کو باطل کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زخموں کا قصاص اس وقت تک لینا ممنوع ہے کہ جب تک زخمی آدمی صحت مند و تندرست نہ ہو جائے۔ اس روایت کو احمد اور دارقطنی نے روایت کیا ہے اور اسے مرسل ہونے کی وجہ سے معلول کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1001]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:2 /217، والدارقطني: 3 /88، ابن جريج مدلس وعنعن.»

حدیث نمبر: 1002
وعن أبي هريرة قال: اقتتلت امرأتان من هذيل فرمت إحداهما الأخرى بحجر فقتلتها وما في بطنها. فاختصموا إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقضى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن دية جنينها غرة عبد أو وليدة وقضى بدية المرأة على عاقلتها وورثها ولدها ومن معهم فقال حمل بن النابغة الهذلي: يا رسول الله كيف يغرم من لا شرب ولا أكل ولا نطق ولا استهل؟ فمثل ذلك يطل فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إنما هذا من إخوان الكهان» من أجل سجعه الذي سجع. متفق عليه. وأخرجه أبو داود والنسائي من حديث ابن عباس: أن عمر سأل من شهد قضاء رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الجنين؟ قال: فقام حمل بن النابغة فقال: كنت بين يدي امرأتين فضربت إحداهما الأخرى". فذكره مختصرا وصححه ابن حبان والحاكم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ایک نے دوسری پر پتھر دے مارا۔ اس پتھر سے وہ عورت اور اس کے پیٹ کا بچہ مر گیا تو اس کے وارث مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا جنین کے بدلے ایک لونڈی یا غلام ہے اور عورت کے بدلے قاتل کے وارثوں پر دیت عائد فرما دی اور اس کے خون بہا کا وارث اس کی اولاد کو بنایا اور ان وارثوں کو بھی جو ان کے ساتھ تھے۔ حمل بن نابغہ ھذلی نے کہا اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم ایسے بچے کا بدلہ کیسے دیں جس نے نہ پیا، نہ کھایا، نہ بولا اور نہ چیخا۔ اس طرح کا حکم تو قابل اعتبار نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس نے تو کاہنوں کی سی قافیہ بندی کی ہے۔ (بخاری و مسلم) ابوداؤد اور نسائی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کون شخص جنین کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے موقع پر حاضر تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حمل بن نابغہ کھڑا ہوا اور بیان کیا کہ میں اس وقت ان دو عورتوں کے درمیان تھا، جب ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا تھا۔ پھر مختصر حدیث کا ذکر کیا۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1002]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الطب، باب الكهانة، حديث:5758، ومسلم، القسامة، باب دية الجنين، حديث:1681، وحديث ابن عباس: أخرجه أبوداود، الديات، حديث:4572، والنسائي، القسامة، حديث:4822، 4832، وابن حبان (الإحسان): 7 /605، حديث:5989، والحاكم.»

حدیث نمبر: 1003
وعن أنس أن الربيع بنت النضر عمته كسرت ثنية جارية فطلبوا إليها العفو فأبوا فعرضوا الأرش فأبوا فأتوا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأبوا إلا القصاص فأمر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بالقصاص،‏‏‏‏ فقال أنس بن النضر: يا رسول الله أتكسر ثنية الربيع؟ لا والذي بعثك بالحق لا تكسر ثنيتها فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏يا أنس كتاب الله القصاص» ‏‏‏‏ فرضي القوم فعفوا فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره» . متفق عليه واللفظ للبخاري.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دئیے۔ ربیع کے رشتہ داروں نے اس سے معافی طلب کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے دیت دینے کی پیش کش کی۔ اسے بھی انہوں نے رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آئے اور قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے سوا کسی بھی چیز کو لینے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر سیدنا انس بن نضر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں، اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس! اللہ کا نوشتہ تو قصاص ہی ہے۔ اتنے میں وہ لوگ اس پر رضامند ہو گئے اور پھر معافی دے دی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1003]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلح، باب الصلح في الدية، حديث:2703، ومسلم، القسامة، باب إثبات القصاص في الأسنان وما في معناها، حديث:1675.»

حدیث نمبر: 1004
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من قتل في عميا أو رميا بحجر أو سوط أو عصا فعقله عقل الخطأ ومن قتل عمدا فهو قود ومن حال دونه فعليه لعنة الله» ‏‏‏‏ أخرجه أبو داود والنسائي وابن ماجه بإسناد قوي.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اندھا دھند لڑائی میں قتل ہو جائے یا پتھر پھینکنے سے قتل ہو جائے یا کوڑے اور لاٹھی سے مر جائے تو اس کی دیت، خطا کی دیت ہو گی۔ جو شخص عمداً قتل کیا جائے گا تو اس کا قصاص ہے اور جو شخص قصاص لینے میں حائل ہوا تو ایسے شخص پر اللہ کی لعنت ہے۔ اس حدیث کو ابوداؤد اور نسائی نے قوی سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1004]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الديات، باب من قتل في عميا بين قوم، حديث:4539، والنسائي، القسامة، حديث:4793، وابن ماجه، الديات، حديث:2635.»

حدیث نمبر: 1005
وعن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إذا أمسك الرجل الرجل وقتله الآخر يقتل الذي قتل ويحبس الذي أمسك» ‏‏‏‏ رواه الدارقطني موصولا ومرسلا وصححه ابن القطان ورجاله ثقات. إلا أن البيهقي رجح المرسل.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ایک آدمی دوسرے آدمی کو پکڑ رکھے اور دوسرا آدمی پکڑے ہوئے آدمی کو قتل کر دے تو قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کر دیا جائے گا۔ اسے دارقطنی نے موصولاً اور مرسلاً روایت کیا ہے اور ابن قطان نے اسے صحیح قرار دیا۔ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ مگر بیہقی نے اس کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1005]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:3 /140، والبيهقي"8 /50، سفيان الثوري عنعن، وفيه علة أخري.»

حدیث نمبر: 1006
وعن عبد الرحمن بن البيلماني أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قتل مسلما بمعاهد وقال: «‏‏‏‏أنا أولى من وفى بذمته» ‏‏‏‏ أخرجه عبد الرزاق مرسلا ووصله الدارقطني بذكر ابن عمر فيه وإسناد الموصول واه.
سیدنا عبدالرحمٰن بن بیلمانی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عہدی (کافر) کے بدلے ایک مسلمان کو قتل کیا اور (ساتھ ہی) فرمایا میں ایفائے عہد کرنے والوں میں سب سے بہتر وفا کرنے والا ہوں۔ عبدالرزاق نے اسی طرح مرسل روایت کیا ہے اور دارقطنی نے اس کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موصل بیان کیا ہے لیکن اس کی سند کمزور ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1006]
تخریج الحدیث: «أخرجه عبدالرزاق في المصنف:10 /101، حديث:18514، وابن أبي شيبة، والطحاوي،135، وفي سنده إبراهيم بن أبي يحييٰ وهو متروك، وله شاهد مرسل عند الطحاوي فيه محمد بن أبي حميد ضعيف جدًا، قال البخاري: منكر الحديث، وشاهد مرسل عند أبي داود في المراسيل، وفيه عبدالله بن يعقوب وعبدالله بن عبدالعزيز بن صالح الحضرمي مجهولان، فائدة: ولم يثبت عن عمر أنه قتل رجلاً مسلمًا في قتل الكافر، رواه إبراهيم النخعي وهو ولد بعد شهادة عمررضي الله عنه، وأما أثرعبيدالله بن عمر بن الخطاب، فإنه قتل مسلمين:الهرمزان وابنة أبي لؤلؤة ولم يريدوا أن يقتلوه في قتل الكافر، وأثر علي فيه قيس بن الربيع وحسين بن ميمون ضعيفان.»

حدیث نمبر: 1007
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال:" قتل غلام غيلة فقال عمر: لو اشترك فيه أهل صنعاء لقتلتهم به" أخرجه البخاري.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دھوکہ سے ایک غلام کو قتل کر دیا گیا۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر اس کے قتل میں سارے اہل صنعاء شریک ہوتے تو میں ان سب کو قتل کر ڈالتا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1007]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الديات، باب إذا أصاب قوم من رجل هل يعاقب أو يقتص...، حديث"6896.»

حدیث نمبر: 1008
وعن أبي شريح الخزاعي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏فمن قتل له قتيل بعد مقالتي هذه فأهله بين خيرتين: إما أن يأخذوا العقل أو يقتلوا» ‏‏‏‏ أخرجه أبو داود والنسائي وأصله في الصحيحين من حديث أبي هريرة بمعناه.
سیدنا ابوشریح خزاعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اس خطبہ کے بعد اگر کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو متوفی کے ورثاء کو دو اختیار ہیں یا تو دیت لے لیں یا قاتل کو مقتول کے بدلہ میں قتل کر دیں۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس روایت کا اصل اس کے ہم معنی صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1008]
تخریج الحدیث: « [إٍسناده صحيح] أخرجه أبوداود، الديات، باب ولي العمد يأخذ الدية، حديث:4504، والترمذي، الديات، حديث:1406، وأصله متفق عليه، البخاري، الديات، حديث:6880، ومسلم، الحج، حديث:1355.»