الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
9. باب مَا أُكْرِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُزُولِ الطَّعَامِ مِنَ السَّمَاءِ:
9. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم میں آسمان سے کھانا اترنے کا بیان
حدیث نمبر: 56
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مَسْلَمَةَ السَّكُونِيَّ، وَقَالَ غَيْرُ مُحَمَّدٍ: سَلَمَةَ السَّكُونِيَّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ أُتِيتَ بِطَعَامٍ مِنْ السَّمَاءِ؟، قَالَ: "نَعَمْ أُتِيتُ بِطَعَامٍ"، قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هَلْ كَانَ فِيهِ مِنْ فَضْلٍ؟، قَالَ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَمَا فُعِلَ بِهِ؟، قَالِ:"رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ، وَقَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنِّي غَيْرُ لَابِثٍ فِيكُمْ إِلَّا قَلِيلًا، ثُمَّ تَلْبَثُونَ، حَتَّى تَقُولُوا: مَتَى مَتَى؟ ثُمَّ تَأْتُونِي أَفْنَادًا يُفْنِي بَعْضُكُمْ بَعْضًا، بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ مُوتَانٌ شَدِيدٌ، وَبَعْدَهُ سَنَوَاتُ الزَّلَازِلِ".
سیدنا مسلمہ السکونی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو آسمان سے کھانا مہیا کیا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے پاس کھانا لایا گیا، اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! اس میں سے کچھ بچا بھی تھا، فرمایا: ہاں بچا تھا، کہا: پھر وہ کیا ہوا؟ فرمایا: آسمان پر اٹھا لیا گیا اور مجھے وحی کی گئی کہ میں تمہارے ساتھ بہت کم ٹھہروں گا اور تم لوگ موجود رہو گے اور کہنے لگو گے کب کب؟ (قیامت آئے گی)، پھرتم چھوٹی ٹولیوں میں میرے پاس ایک دوسرے کے ساتھ قتل و غارتگری کرتے ہوئے آؤ گے، قرب قیامت بہت اموات ہوں گی اور اس کے بعد زلزلوں کے سال آ ئیں گے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 56]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف معاوية بن يحيى ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 56] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن [مسند ابي يعلى 6861] اور [صحيح ابن حبان 6777] میں صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [موارد الظمآن 1861]

حدیث نمبر: 57
أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُتِيَ بِقَصْعَةٍ مِنْ ثَرِيدٍ"، فَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ الْقَوْمِ، فَتَعَاقَبُوهَا إِلَى الظُّهْرِ مِنْ غُدْوَةٍ، يَقُومُ قَوْمٌ وَيَجْلِسُ آخَرُونَ، فَقَالَ رَجُلٌ لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ: أَمَا كَانَتْ تُمَدُّ؟، فَقَالَ سَمُرَةُ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَعْجَبُ؟ مَا كَانَتْ تُمَدُّ إِلَّا مِنْ هَا هُنَا، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ.
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثرید سے بھرا ہوا ایک برتن لایا گیا اور لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا اور صبح سے دوپہر تک لوگ باری باری اس سے کھانا تناول کرتے رہے، ایک جماعت کھڑی ہوتی اور دوسری جماعت بیٹھ جاتی۔ ایک آدمی نے سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا اس برتن یا پیالے میں اور کچھ ڈالا گیا تھا؟ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں تعجب کیوں ہے؟ اور انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس میں وہاں سے کھانا آ رہا تھا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 57]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 57] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبة 11754] ، [ترمذي 3629] ، [دلائل النبوة 92/6] ، [صحيح ابن حبان 6529] ۔ مزید دیکھئے: [موارد الظمآن 2149]

وضاحت: (تشریح احادیث 56 سے 57)
❀ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی کبھی کبھی آسمان سے رزق آتا تھا۔
❀ اس حدیث سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ و کرامت ثابت ہوئی کہ ثرید کا ایک چھوٹا سا برتن اور اس سے لوگ صبح سے شام تک کھاتے رہے۔
❀ یہ کرامت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی جو اس نے اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی، ورنہ انسان کے بس میں کچھ نہیں ہے، جیسا کہ سیدنا سمرة رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا کہ کھانا وہاں سے آرہا تھا۔