الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الاستئذان
کتاب الاستئذان کے بارے میں
25. باب في النَّهْيِ عَنِ الْجُلُوسِ في الطُّرُقَاتِ:
25. راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2690
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنَاسٍ جُلُوسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: "إِنْ كُنْتُمْ لَا بُدَّ فَاعِلِينَ، فَاهْدُوا السَّبِيلَ، وَأَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَعِينُوا الْمَظْلُومَ". قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو إِسْحَاق مِنَ الْبَرَاءِ.
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے جو راستے میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا یہاں بیٹھنا ضروری ہی ہے تو (بھولے بھٹکے کو) راستہ بتاؤ، سلام کا جواب دو، اور مظلوم کی مدد کرو۔
شعبہ نے کہا: ابواسحاق نے اس حدیث کو سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2690]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده منقطع ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2697] »
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے لیکن دیگر اسانید سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2726] ، [أبويعلی 1717] ، [مشكل الآثار للطحاوي 60/1] ۔ اور بخاری و مسلم میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے اس کا شاہد موجود ہے: «اياكم و الجلوس فى الطرقات ......» ۔ دیکھئے: [بخاري 6229] ، [مسلم 2121] ، [أبويعلی 1247] ، [ابن حبان 595] ، [موارد الظمآن 1954]

وضاحت: (تشریح حدیث 2689)
بازار اور راستے ایسی جگہیں ہیں کہ انسان وہاں بیٹھ کر ذکرِ الٰہی سے غافل، غیبت و چغلی میں ملوث، عورتوں کو دیکھنے، اور کئی فتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، اسی لئے حکم ہوا کہ اگر بیٹھنا ضروری ہو تو مذکورہ بالا افعال و اعمال سے گریز کیا جائے، جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ بیٹھنا اتنا ضروری ہی ہو تو راستے کو اس کا حق ادا کرو، اور وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، راستے سے روکاوٹ ہٹا دو، سلام کا جواب دو، اور اچھی بات کا حکم دو، بری بات یا برے کام سے روکو، اگر یہ کام کوئی نہ کر سکے تو راستے میں نہ بیٹھنا ہی بہتر ہے۔
والله اعلم۔