الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
8. باب الْوَصِيَّةِ بِأَقَلَّ مِنَ الثُّلُثِ:
8. ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 3229
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ زِيَادٍ:"أَنَّ أَبَاهُ زِيَادَ بْنَ مَطَرٍ أَوْصَى، فَقَالَ: وَصِيَّتِي مَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ فُقَهَاءُ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَسَأَلْتُ، فَاتَّفَقُوا عَلَى الْخُمُسِ".
علاء بن زیاد سے مروی ہے کہ زیاد بن مطر نے وصیت کی کہ میری وصیت وہی ہے جس پر بصرہ کے فقیہ اتفاق کریں، میں نے ان سے پوچھا تو ان فقہاء نے پانچویں حصہ کی وصیت پر اتفاق کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3229]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى زياد بن مطر، [مكتبه الشامله نمبر: 3240] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سعيد بن منصور 336]

وضاحت: (تشریح حدیث 3228)
فقہائے بصرہ نے خمس پر اس لئے اتفاق کیا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الثلث و الثلث كثير»، یعنی تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو گرچہ یہ بھی زیادہ ہے، اور ایک روایت میں ہے «الربع» یعنی چوتھائی مال کی وصیت کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔
لیکن یہ روایت صحیح نہیں، کما سیأتی۔

حدیث نمبر: 3230
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ زِيَادٍ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ:"إِنَّ وَارِثِي كَلَالَةٌ، فَأُوصِي بِالنِّصْفِ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَالثُّلُثِ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَالرُّبُع؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَالْخُمُس؟ قَالَ: لَا، حَتَّى صَارَ إِلَى الْعُشْرِ، فَقَالَ: أَوْصِ بِالْعُشْرِ".
علاء بن زیاد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: میرا وارث کلالہ (لا ولد) ہے، کیا میں نصف (آدھے مال) کی وصیت کر سکتا ہوں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اس نے کہا: ایک تہائی کی؟ فرمایا: نہیں، اس نے کہا: چوتھائی؟ فرمایا: نہیں، کہا: خمس کی (پانچویں حصے کی)، فرمایا: نہیں، یہاں تک کہ وہ دسویں حصے تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: ہاں، دسویں حصے کی وصیت کر سکتے ہو۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3230]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع العلاء بن زياد روى عن أبيه زياد بن مطر عن عمر بن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 3241] »
اس اثر کی سند کے رجال ثقات ہیں، لیکن اس میں انقطاع ہے کیوں کہ علاء اپنے والد زیاد سے، وہ امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں جن کا مذکور بالا سند میں ذکر نہیں، نیز یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلہ میں قابلِ استدلال نہیں۔ واللہ علم

حدیث نمبر: 3231
حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: "إِنَّمَا كَانُوا يُوصُونَ بِالْخُمُسِ وَالرُّبُعِ، وَكَانَ الثُّلُثُ مُنْتَهَى الْجَامِحِ. قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يَعْنِي بِالْجَامِحِ: الْفَرَسَ الْجَمُوحَ.
عامر (شعبی) رحمہ اللہ نے کہا: لوگ خمس اور ربع کی وصیت کیا کرتے تھے اور ثلث امتناع کی حد تھی۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: جامع کا مطلب ہے نافرمان خود سر گھوڑا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3231]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3242] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10971] ، [ابن منصور 340] ۔ یعلی: ابن عبید، اور اسماعیل: ابن ابی خالد ہیں۔

وضاحت: (تشریح احادیث 3229 سے 3231)
خمس پانچواں اور ربع چوتھا حصہ یعنی وصیت تہائی سے کم کیا کرتے تھے، اور ان کے نزدیک تہائی نافرمانی کی حد تھی، یعنی اس سے زیادہ کی وصیت ممنوع سمجھتے تھے۔
والله اعلم۔

حدیث نمبر: 3232
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ بَكْرٍ، قَالَ:"أَوْصَيْتُ إِلَى حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لِأَقْبَلَ وَصِيَّةَ رَجُلٍ لَهُ وَلَدٌ يُوصِي بِالثُّلُثِ".
بکر (ابن عبداللہ مزنی) نے کہا: میں نے حمید بن عبدالرحمٰن کے لئے وصیت کی تو انہوں نے کہا: میں ایسے آدمی کی وصیت قبول نہیں کر سکتا جس کی اولاد موجود ہو اور وہ تہائی کی وصیت کرے (یعنی ثلث سے کم کی وصیت قبول کی جا سکتی ہے)۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3232]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3243] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10967] ۔ سند میں مذکور حمید: ابن ابی حمید ہیں۔

حدیث نمبر: 3233
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ شُرَيْحٍ، قَالَ: "الثُّلُثُ جَهْدٌ وَهُوَ جَائِزٌ".
قاضی شریح نے کہا: ثلث (تہائی حصہ) مشقت ہے لیکن جائز ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3233]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3244] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10968] ، [عبدالرزاق 16369] ، [ابن منصور 341] ۔ قبيصہ: ابن عتبہ ہیں۔

حدیث نمبر: 3234
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "كَانَ السُّدُسُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ الثُّلُثِ".
منصور (ابن المعتمر) سے مروی ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: لوگوں کے نزدیک چھٹا حصہ (وصیت کے لئے) تہائی حصے سے زیاد محبوب تھا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3234]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3245] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10975] ، [عبدالرزاق 16365] ، [ابن منصور 337]

وضاحت: (تشریح احادیث 3231 سے 3234)
ان تمام آثار سے واضح ہوا کہ مرنے والا اپنے مال میں سے ثلث سے کم ہی وصیت کرے، کیوں کہ تہائی ایک حد ہے، اس سے کم کی وصیت ہونی چاہیے۔