الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
9. باب مَا يَجُوزُ لِلْوَصِيِّ وَمَا لاَ يَجُوزُ:
9. وصی کے لئے کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے؟
حدیث نمبر: 3235
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "الْوَصِيُّ أَمِينٌ فِيمَا أُوصِيَ إِلَيْهِ بِهِ".
مغیرہ سے مروی ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: وصی اس چیز کا امین ہے جس کی اس کے لئے وصیت کی جا رہی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3235]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3246] »
اس اثر کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11013]

وضاحت: (تشریح حدیث 3234)
وصی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے نام سے وصیت کی جائے، یا جس کو وصیت کی تنفیذ کا مکلّف بنایا جائے، نیز وصیت کرنے والے کو بھی وصی کہتے ہیں لیکن یہاں مراد پہلا معنی ہے۔

حدیث نمبر: 3236
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ أبي وَهْبٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: "أَمْرُ الْوَصِيِّ جَائِزٌ فِي كُلِّ شَيْءٍ، إِلَّا فِي الِابْتِيَاعِ، وَإِذَا بَاعَ بَيْعًا لَمْ يُقِلْ"، وَهُوَ رَأْيُ يَحْيَى بْنِ حَمْزَةَ.
ابووہب سے مروی ہے مکحول رحمہ اللہ نے کہا: وصی کا معاملہ مکان، دکان، زمین کے علاوہ ہر چیز میں جائز ہے، اگر وہ کسی چیز کی بیع کرے تو وہ منسوخ نہ ہو گی۔ یحییٰ بن حمزہ کی یہی رائے ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3236]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3247] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابووہب کا نام عبیداللہ بن عبید کلاعی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11015]

حدیث نمبر: 3237
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: "الْوَصِيُّ أَمِينٌ فِي كُلِّ شَيْءٍ، إِلَّا فِي الْعِتْقِ، فَإِنَّ عَلَيْهِ أَنْ يُقِيمَ الْوَلَاءَ".
یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: وصی سوائے غلام آزاد کرنے کے ہر چیز کا امین ہے، اور وہ ولاء قائم کر سکتا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3237]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3248] »
اس اثر کی سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں اور عن سے روایت کی ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔

حدیث نمبر: 3238
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ:"فِي مَالِ الْيَتِيمِ يَعْمَلُ بِهِ الْوَصِيُّ إِذَا أَوْصَى إِلَى الرَّجُلِ".
منصور (ابن المعتمر) سے روایت ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: یتیم کے مال میں وصی (جس کو وصیت کی گئی ہے) کام (تجارت وغیرہ) کرے گا جب کسی آدمی نے اس کو وصیت کی ہو۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3238]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3249] »
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کسی اور محدث نے اسے روایت نہیں کیا۔ عبیداللہ: ابن موسیٰ، اور اسرائیل: ابن یونس بن ابی اسحاق ہیں۔

حدیث نمبر: 3239
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "وَصِيُّ الْيَتِيمِ يَأْخُذُ لَهُ بِالشُّفْعَةِ، وَالْغَائِبُ عَلَى شُفْعَتِهِ".
اسماعیل سے مروی ہے حسن رحمہ اللہ نے کہا: یتیم کا وصی اس کے لئے حق شفعہ لے گا اور غائب کا وصی جس کو شفعہ کی وصیت کی گئی ہو وہ بھی حق شفعہ لے گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3239]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسماعيل بن مسلم المكي ضعيف وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 3250] »
اس اثر میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہیں۔ دیگر کسی محدث نے اسے روایت نہیں کیا۔

وضاحت: (تشریح احادیث 3235 سے 3239)
حقِ شفعہ مکان، دکان، زمین میں پڑوسی اور شریک کا یہ حق ہوتا ہے کہ اگر ان کو بیچنا چاہے تو پہلے شریک یا پڑوسی سے پوچھ لے، پہلے خریدنے کا حق اس کا ہے، جب اس کو حاجت یا استطاعت نہ ہو تو دوسرا کوئی بھی شخص خرید سکتا ہے۔
مذکور بالا اثر میں یتیم کے وصی یا ولی کو اختیار ہوگا کہ وہ شفعہ کا مطالبہ کرے اور حقِ شفعہ یتیم کے لئے اس کو دینا ہوگا۔

حدیث نمبر: 3240
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ شَيْخٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ، قَالَ:"كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَعِنْدَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ، وَأَبُو قِلَابَةَ، إِذْ دَخَلَ غُلَامٌ، فَقَالَ: أَرْضُنَا بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا، بَاعَكُمْ الْوَصِيُّ وَنَحْنُ أَطْفَالٌ، فَالْتَفَتَ إِلَى سُلَيْمَانَ بْنِ حَبِيبٍ، فَقَالَ: مَا تَقُولُ؟ قَالَ: فَأَضْجَعَ فِي الْقَوْلِ، فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ، فَقَالَ: مَا تَقُولُ؟ قَالَ: رُدَّ عَلَى الْغُلَامِ أَرْضَهُ، قَالَ: إِذًا يَهْلِكُ مَالُنَا؟ قَالَ: أَنْتَ أَهْلَكْتَهُ".
عکرمہ نے روایت کیا: دمشق کے ایک شیخ نے کہا: میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس تھا اور ان کے پاس سلیمان بن حبیب اور ابوقلابہ بھی موجود تھے کہ اچانک ایک لڑکا آیا اور گویا ہوا کہ فلاں جگہ ہماری زمین ہے جس کو ہمارے وصی نے آپ کے لئے فروخت کر دیا اس وقت ہم بچے تھے، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سلیمان بن حبیب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے گول مول جواب دیا، پھر وہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: لڑکے کی زمین لوٹا دو، انہوں نے کہا: پھر تو ہمارا مال مارا جائے گا، جواب دیا: آپ نے خود اپنے مال کو ضائع کیا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3240]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3251] »
اس اثر کی سند میں عکرمہ مجہول ہیں، باقی رجال ثقہ ہیں۔ یہ روایت بھی کہیں اور نہیں مل سکی لیکن اس کے ہم معنی۔ دیکھئے: [ابن منصور 329] ، [مصنف عبدالرزاق 16479]