الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب فضائل القرآن
قرآن کے فضائل
15. باب في فَضْلِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَآلِ عِمْرَانَ:
15. سورہ البقرہ اور آل عمران کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3423
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا بَشِيرٌ هُوَ ابْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "تَعَلَّمُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ، ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: تَعَلَّمُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَآلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا الزَّهْرَاوَانِ، وَإِنَّهُمَا تُظِلَّانِ صَاحِبَهُمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ: غَيَايَتَانِ، أَوْ: فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، وَإِنَّ الْقُرْآنَ يَلْقَى صَاحِبَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ كَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ تَعْرِفُنِي؟ فَيَقُولُ: مَا أَعْرِفُكَ، فَيَقُولُ: أَنَا صَاحِبُكَ الْقُرْآنُ الَّذِي أَظْمَأْتُكَ فِي الْهَوَاجِرِ، وَأَسْهَرْتُ لَيْلَكَ، وَإِنَّ كُلَّ تَاجِرٍ مِنْ وَرَاءِ تِجَارَتِهِ، وَإِنَّكَ الْيَوْمَ مِنْ وَرَاءِ كُلِّ تِجَارَةٍ، فَيُعْطَى الْمُلْكَ بِيَمِينِهِ، وَالْخُلْدَ بِشِمَالِهِ، وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ، وَيُكْسَى وَالِدَاهُ حُلَّتَيْنِ لَا يُقَوَّمُ لَهُمَا الدُّنْيَا، فَيَقُولَانِ: بِمَ كُسِينَا هَذَا؟ وَيُقَالُ لَهُمَا: بِأَخْذِ وَلَدِكُمَا الْقُرْآنَ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: اقْرَأْ وَاصْعَدْ فِي دَرَجِ الْجَنَّةِ وَغُرَفِهَا، فَهُوَ فِي صُعُودٍ مَا دَامَ يَقْرَأُ هَذًّا كَانَ، أَوْ تَرْتِيلًا".
عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، میں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: سورہ بقرہ کو سیکھو، اس کو حاصل کرنا (یعنی پڑھنا) باعث برکت اور ترک کرنا حسرت ہے، اور جادوگر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: سورہ البقرہ اور آل عمران کا علم حاصل کرو، یہ دونوں سورتیں چمکیلی ہیں اور قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے پر سایہ کئے ہوں گی جیسے کہ دو بادل ہیں یا سائبان ہیں، یا اڑتے ہوئے پرندوں کی دو ٹکڑیاں ہیں، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے حجت کرتی (دفاع کرتی) ہوئی آئیں گی، اور قیامت کے دن قرآن پاک اپنے پڑھنے والے کے پاس جب وہ قبر سے اٹھےگا، تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گا (جس کا بیماری اور سفر کی وجہ سے رنگ بدل گیا ہو) اور قرآن اس سے کہے گا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وہ جواب دے گا: نہیں، قرآن کہے گا: میں قرآن تمہارا وہ ساتھی ہوں جس نے گرمی کی دوپہر میں تمہیں پیاسا رکھا (یعنی پیاس میں بھی قرآن پڑھتے رہے)، راتوں کو تمہیں جگایا، جب کہ ہر تجارت پیشہ آدمی اپنی تجارت میں لگے تھے، لیکن آج تم ہر قسم کی تجارت کے پیچھے ہو، پھر اس کو داہنے ہاتھ میں ملک عطا ہو گی اور بایاں ہاتھ میں خلد بریں، اور اس کے سر پر وقار کا تاج پہنایا جائے گا، اور اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے جو دنیا کے لحاظ سے انمول ہوں گے، وہ دونوں ماں باپ کہیں گے: یہ لباس ہم کو کیوں پہنائے گئے ہیں؟ ان کو جواب دیا جائے گا: تمہارے بیٹے کے قرآن یاد کرنے کی وجہ سے ہے، پھر اس (حافظ قرآن) سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتے جاؤ اور جنت کی سیڑھی و بالا خانوں پر چڑھتے جاؤ، چنانچہ وہ ہذا یا ترتیلا جس طرح بھی پڑھے جب تک پڑھتا رہے گا چڑھتارہے گا۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3423]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل بشير بن المهاجر، [مكتبه الشامله نمبر: 3434] »
بشیر بن مہا جر کی وجہ سے اس حدیث کی سند حسن ہے، لیکن اس کے بعض جملوں کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: [مسلم 804] ، [ابن ماجه 3781] ، [أحمد 348/5، واللفظ له] ، [الحاكم 2057] ، [ابن أبى شيبه 10094] ، [عبدالرزاق 6014]

وضاحت: (تشریح حدیث 3422)
یعنی اس کو اتنا بلند مقام جنّت میں ملے گا کہ پڑھتا جائے گا اور چڑھتا جائے گا، جنّت میں نہ تھکان ہوگی نہ پریشانی، اور «هَذًّا و تَرْتِيْلًا» قرآن پاک پڑھنے کے انداز ہیں جو تجوید و ترتیل و حدر کے لحاظ سے علمائے قرأت نے مقرر کئے ہیں، یعنی جلدی جلدی پڑھے یا خوب ٹھہر ٹھہر کر تجوید و قراءت کے ساتھ پڑھے۔
اس کا مقام اعلیٰ سے اعلیٰ ہوگا۔

حدیث نمبر: 3424
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ أَبِي يَحْيَى سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا أُمَامَةَ، يَقُولُ: "إِنَّ أَخًا لَكُمْ أُرِيَ فِي الْمَنَامِ أَنَّ النَّاسَ يَسْلُكُونَ فِي صَدْعِ جَبَلٍ وَعْرٍ طَوِيلٍ، وَعَلَى رَأْسِ الْجَبَلِ شَجَرَتَانِ خَضْرَاوَانِ تَهْتِفَانِ: هَلْ فِيكُمْ مَنْ يَقْرَأُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ؟ هَلْ فِيكُمْ مَنْ يَقْرَأُ سُورَةَ آلِ عِمْرَانَ؟ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ: نَعَمْ، دَنَتَا بِأَعْذَاقِهِمَا حَتَّى يَتَعَلَّقَ بِهِمَا، فَتَخْطِرَانِ بِهِ الْجَبَلَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: الْأَعْذَاقُ: الْأَغْصَانُ.
ابویحییٰ سلیم بن عامر سے مروی ہے، انہوں نے ابوامامہ سے سنا، وہ کہتے تھے: تمہارے ایک بھائی نے خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک پہاڑ کی کی لمبی وحشت ناک دراڑ میں چل رہے ہیں، اور پہاڑ کی چوٹی پر دو ہرے بھرے درخت ہیں جو آواز لگا رہے ہیں: تم میں سے ایسا کوئی ہے جو سورہ بقرہ پڑھتا ہے؟ تم میں سے کوئی ہے جو سورہ آل عمران پڑھتا ہے؟ پس اگر کسی آدمی نے اثبات میں جواب دیا تو وہ دونوں درخت اس کے لئے اپنی شاخیں قریب کر دیتے ہیں جن کو پکڑ کر وہ شخص اکڑتا ہوا پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اعذاق و اغصان (یعنی ٹہنی اور شاخوں) کو کہتے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3424]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 3435] »
عبداللہ بن صالح کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ ابوعبید نے [فضائل القرآن، ص: 236] پر اس کو ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [الدر المنثور 18/1]

حدیث نمبر: 3425
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:"قَرَأَ رَجُلٌ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ الْبَقَرَةَ، وَآلَ عِمْرَانَ، فَقَالَ: قَرَأْتَ سُورَتَيْنِ فِيهِمَا اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ، أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى".
مسروق سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی نے سورہ بقرہ اور آل عمران کی تلاوت کی تو انہوں نے کہا: تم نے ایسی دو سورتیں پڑھی ہیں جن میں الله تعالیٰ کا وہ اسم اعظم ہے کہ اس نام کو لے کر اگر دعا کی جائے تو وہ قبول ہو، اور اگر کچھ مانگا جائے تو عطا ہو۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3425]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف جابر بن يزيد الجعفي، [مكتبه الشامله نمبر: 3436] »
جابر بن یزید الجعفی کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن اس کا شاہد بسند جید موجود ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن للفريابي 44، ويشهد له حديث أسما بنت يزيد رقم 3421] ، نیز [مشكل الآثار لطحاوي 63/1] ، [طبراني فى الكبير 282/8، 7925] و [الفريابي بسند آخر جيد 47] و [الحاكم 1861]

وضاحت: (تشریح احادیث 3423 سے 3425)
الله تعالیٰ کا اسمِ اعظم جو ان سورتوں میں ہے، وہ ہے: «﴿اللّٰهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ﴾» اس لئے تقویٰ، اکلِ حلال، اور امید و رجاء، عاجزی و انکساری سے اگر کوئی دعا اس طرح کی جائے: «اَللّٰهُمَّ يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ اسْتَغِيْثُ» تو وہ دعا قبول ہونے اور جو مانگا جائے اس کے مل جانے کا قوی امکان ہے۔
واللہ اعلم۔

حدیث نمبر: 3426
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عَطَّافٍ، عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: "مَنْ قَرَأَ الْبَقَرَةَ، وَآلَ عِمْرَانَ، جَاءَتَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَقُولَانِ: رَبَّنَا لَا سَبِيلَ عَلَيْهِ".
ابوعطاف سے مروی ہے، سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس شخص نے سورہ بقرہ اور آل عمران کا ورد رکھا تو یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن آ کر اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گی: اے ہمارے رب! اس کو مشکل و مصیبت میں نہ ڈال۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3426]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عبد السلام متأخر السماع من سعيد بن إياس الجريري وهو موقوف على كعب الأحبار، [مكتبه الشامله نمبر: 3437] »
یہ روایت سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، اور سند بھی ضعیف ہے، اور صرف [الدر المنثور 19/1] میں مذکور ہے۔ نیز سورہ بقرہ اور آل عمران کی فضیلت صحیح حدیث سے ثابت ہے جو اسی باب کے شروع میں مذکور ہیں۔