منصور بن ابی مزاحم اور محمد بن جعفر بن زیاد نے کہا: ہمیں ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے حدیث سنائی، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون ساعمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ” اللہ عز وجل پر ایمان لانا۔“ پوچھا گیا: پھر اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔“ پوچھا گیا: پھر کو ن سا؟ فرمایا: ”حج مبرور (ایسا حج جو سراسرنیکی اور تقوے پر مبنی اور مکمل ہو۔)“ محمد بن جعفر کی روایت میں ” اللہ اور اس کے رسول پر ایمان“ کے الفاظ ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”ایمان باللہ۔“ پوچھا گیا پھر اس کے بعد کون سا؟ آپؐ نے فرمایا: ”جہاد (اللہ کے راستے میں جہاد کرنا)“ پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: ”حجِ مقبول۔“ اور محمد بن جعفر کی روایت میں ہے ”اللہ اور رسول پر ایمان لانا۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 83
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الايمان، باب: من قال: ان الايمان هو العمل برقم (26) وفي الحج، باب: فضل الحج المبرور برقم (1447) والنسائي في كتاب: الايمان، باب: ذکر افضل الاعمال 93/8-94 - انظر ((التحفة)) برقم (13101)»
(ابراہیم بن سعد کے بجائے معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی۔
امام صاحبؒ یہی روایت ایک دوسری سند سے بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 83
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه النسائي في ((المجتبى)) 113/5 فی الحج، باب: فضل الحج، وفي الجهاد، في باب ما يعدل الجهاد في سبيل الله عز وجل 19/6 - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (13280)»
ہشام بن عروہ نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے ابو مراوح لیثی سے اور انہون نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا، میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کو ن سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم : ” اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ کہا: میں (پھر) پوچھا: کون سی گردن (آزادکرنا) افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ” جو اس کے مالکوں کی نظر میں زیادہ نفیس اور زیادہ قیمتی ہو۔“ کہا: میں نے پوچھا: اگر میں یہ کام نہ کر سکوں تو؟ آپ نے فرمایا: ” کسی کاریگر کی مدد کرو یا کسی اناڑی کا کام (خود) کر دو۔“ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ غور فرمائیں اگر میں ایسے کسی کام کی طاقت نہ رکھتا ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: ” لوگوں سے اپنا شر روک لو (انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ) یہ تمہاری طرف سے خود تمہارے لیے صدقہ ہے۔“
حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! کون سا عمل افضل ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ پھر میں نے پوچھا کون سی گردن (آزاد کرنا) افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ”مالکوں کو پسندیدہ اور قیمت میں زیادہ۔“ میں نے پوچھا اگر میں یہ کام نہ کر سکوں؟ آپؐ نے فرمایا: ”ماہر کاریگر کی مدد کرو اور اناڑی کا کام کردو۔“ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! اگر میں کوئی کام نہ کر سکوں؟ آپؐ نے فرمایا: ”لوگوں سے اپنا شر روک لو، (ان کو تکلیف نہ پہنچاؤ) یہ بھی تیرا اپنے اوپر صدقہ ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 84
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في العتق باب: اى الرقاب افضل برقم (2382) والنسائي في ((المجتبى)) 19/6 في الجهاد، باب: ما يعدل الجهاد في سبيل الله مختصراً۔ وابن ماجه في ((سننه)) في العتق، باب: العتق برقم (2523) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (12004)»
(ہشام کے بجائے) عروہ بن زبیر کے آزاد کردہ غلام حبیب نے سابقہ سند سے یہی روایت بیان کی، فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے (تعین صانعاکسی کاریگر کے بجائے (فتعین الصانع (الف لام کےساتھ) کہا ہے۔
امام صاحبؒ ایک اور سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، فرق یہ ہے کہ اس میں "فَتُعِينُ الصَّانِعَ أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ" کے الفاظ ہیں (اوپرکی روایت میں تعین صانعاً تھا)
ترقیم فوادعبدالباقی: 84
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (246)»
(ابو اسحاق سلیمان بن فیروز کوفی) شیبانی نے ولید بن عیزار سے، انہوں نے سعد بن ایاس ابو عمرو شیبانی سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ” نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔“ میں پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: ” والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ فرمایا: ” اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ میں نے مزید پوچھنا صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ آپ پر گراں نہ گزرے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نماز اپنے وقت پر۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ فرمایا: ”والدین کے ساتھ حسنِ سلوک۔“ میں نے پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: ”اللہ کی راہ میں جہاد۔“ میں نے آپ کی رعایت و لحاظ کی خاطر مزید سوالات نہ کیے۔ (کہ آپ پر گراں نہ گزرے)
ترقیم فوادعبدالباقی: 85
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في مواقيت الصلاة، باب: فضل الصلاة لوقتها برقم (504) وفي الجهاد، باب: فضل الجهاد والسير برقم (2630) وفي الادب، باب: البر والصلة برقم (5625) وفي التوحيد،باب: وسمى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة عملا وقال: ((لاصلاة لمن لمن يقرا بفاتحة الكتاب)) برقم (7096) والترمذى في ((جامعه)) في الصلاة، باب: ما جاء في الوقت الاول من الفضل۔ وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (173) والنسائي في ((المجتبى)) 1//292 في المواقيت، باب فضل الصلاة لمواقيتها - انظر ((تحفة الاشراف)) (9232)»
ابو یعفور (عبد الرحمان بن عبید بن نسطانس) نے ولید بن عیزار کے حوالے سے ابو عمرو شیبانی سے حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی!کون سا عمل جنت سے زیادہ قریب (کردیتا) ہے؟ فرمایا: ”نمازیں اپنے اپنے اوقات پر پڑھنا۔“ میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! اور کیا؟ فرمایا: ” والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔“ میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! اور کیا؟ فرمایا: ” اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے وقت پرنماز۔“ میں نے پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: ”پھر والدین کے ساتھ احسان سے پیش آنا۔“ میں نے پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: ”پھراللہ کی راہ میں جہاد۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 85
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (248)»
عبید اللہ کے والد معاذ بن معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے ولید بن عیزار سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابو عمرو شیبانی کو کہتے ہوئے سنا کہ مجھے اس گھر کے مالک نے حدیث سنائی (اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا) انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کو کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: ” نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ فرمایا: ” پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟فرمایا: ” پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“(ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے مجھے یہ باتیں بتائیں اور اگر میں مزید سوال کرتا تو آ پ مجھے مزید بتاتے۔
ابو عمروشیبانیؒ بیان کرتے ہیں: مجھے اس گھر کےمالک نے بتایا، اور عبداللہؓ کے گھر کی طرف اشارہ کیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا: ”اپنے وقت پر نماز پڑھنا۔“ میں نے کہا پھر کون سا؟ فرمایا: ”پھر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔“ میں نے پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: ”پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ آپ نے یہ باتیں مجھے بتائیں اور اگر میں اور پوچھتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مزید بتا دیتے۔ ابنِ مسعودؓ کا قول ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ باتیں بتائیں اور اگر میں سوال کرتا تو آپ اور عمل بیان فرما دیتے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 85
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (248)»
شعبہ سے ان کے ایک شاگر د محمد بن جعفر نے اسی سند سے یہی روایت بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا: ابو عمرو شیبانی نے عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا لیکن ہمارے سامنے ان کانام نہ لیا۔
امام صاحب ایک دوسری سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں آخر میں اتنا اضافہ کیا عبداللہؓ (ابن مسعود) کے گھر کی طرف اشارہ کیا، ان کا نام ہمیں نہیں بتایا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 85
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (248)»
ابو عمرو شیبانی سے ان کے ایک شاگرد حسن بن عبید اللہ نے یہی روایت بیان کی کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ”سب سے افضل اعمال (یاعمل) وقت پر نماز پڑھنا اور والدین سے حسن سلوک کرنا ہیں۔“
حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال میں سب سے افضل یا افضل عمل وقت پر نماز پڑھنا اور والدین سے حسنِ سلوک اور نیکی کرنا ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 85
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (248)»