الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
26. باب الدُّعَاءِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ:
26. باب: نماز اور دعائے شب۔
حدیث نمبر: 1788
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمِ بْنِ حَيَّانَ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بِتُّ لَيْلَةً عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ فَأَتَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ فَأَتَى الْقِرْبَةَ فَأَطْلَقَ شِنَاقَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا بَيْنَ الْوُضُوءَيْنِ وَلَمْ يُكْثِرْ وَقَدْ أَبْلَغَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، فَقُمْتُ فَتَمَطَّيْتُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَرَى، أَنِّي كُنْتُ أَنْتَبِهُ لَهُ فَتَوَضَّأْتُ فَقَامَ فَصَلَّى، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَدَارَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَتَتَامَّتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ اضْطَجَعَ، فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ، فَأَتَاهُ بِلَالٌ، فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ فَقَامَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، وَكَانَ فِي دُعَائِهِ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَعَظِّمْ لِي نُورًا "، قَالَ كُرَيْبٌ: وَسَبْعًا فِي التَّابُوتِ، فَلَقِيتُ بَعْضَ وَلَدِ الْعَبَّاسِ فَحَدَّثَنِي بِهِنَّ، فَذَكَرَ: عَصَبِي، وَلَحْمِي، وَدَمِي، وَشَعْرِي، وَبَشَرِي، وَذَكَرَ: خَصْلَتَيْنِ.
سلمہ بن کہیل نے کریب سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزاری، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی ضرورت (کی جگہ) آئے، پھر اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس آئے اور اس کا بندھن کھولا، پھر دو (طرح کے) وضو (بہت ہلکا وضو اور بہت زیادہ وضو) کے درمیان کا وضو کیا اور (پانی) زیادہ (استعمال) نہیں کیا اور (وضو) اچھی طرح کیا، پھر اٹھے اور نماز شروع کی تو میں اٹھا اور میں نے انگڑائی لی، اس ڈر سے کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ (کے حالات جاننے) کی خاطر جاگ رہا تھا، پھر میں نے وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔تو میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب (کھڑا) کر لیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ رکعت رات کی نماز مکمل ہوئی، پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے حتیٰ کہ آپ کی سانس لینے کی آواز آنے لگی، آپ جب سوتے تھے تو آواز آتی تھی۔، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دی، آپ نے نماز پڑھی (سنت فجر ادا کیں) اور وضو نہ کیا اور آپ کی دعا میں تھا: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَعَظِّمْ لِي نُورًا» "اےللہ! میرے دل میں نور ڈال دے اور میری آنکھوں میں اور میرے کانوں میں نور بھردے اورمیری دائیں طرف نور کردے اور میری بائیں طرف نور کردے اور میرے نیچے نور کر دے اور میرے آگے اور میرے پیچھے نور کردے اور میرے لئے نور کو عظیم کردے۔" (ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد) کریب نے بتایا کہ (ان کے علاوہ مزید) سات (چیزوں کے بارے میں دعا مانگی جن) کا تعلق جسم کے صندوق (پسلیوں اور اردگرد کے حصے) سے ہے، میر ی ملاقات حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے ہوئی تو انھوں نے مجھے ان کے بارے میں بتایا، انھوں نے بتایا کہ میرے پٹھوں، میرے گوشت، میرےخون، میرے بالوں اور میری کھال (کو نور کردے)، دو اور بھی چیزیں بتائیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گزاری، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی (بول و براز) حاجت پوری کی، پھر اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے، پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس آ کر اس کا بندھن کھولا، پھر درمیانہ وضو کیا پانی زیادہ استعمال نہیں کیا اور وضو اچھی طرح کیا، پھر اٹھے اور نماز شروع کی تو میں اٹھا اور میں نے انگڑائی لی، اس ڈر سے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ سمجھیں کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حالات جاننے کی خاطر جاگ رہا تھا، پھر میں نے وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ رکعت رات کی نماز مکمل ہوئی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو کر خراٹے لینے لگے آپصلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو خراٹے لیتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی (سنت فجر ادا کیں) اور وضو نہ کیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں تھا: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَعَظِّمْ لِي نُورًا» اےللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما اور میری آنکھوں میں نور پیدا کر دے اور میرے سننے میں نور پیدا فرما اورمیرے دائیں نور کر دے اور میرے بائیں طرف نور کر دے اور میرے نیچے نور کر دے اور میرے آگے اور میرے پیچھے نور کر دے اور میرے لئے نور کو بڑھادے۔ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے شاگرد کریب نے بتایا سات کا تعلق جسم سے ہے، اور سلمہ بن کہیل کہتے ہیں، میری ملاقات عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی بیٹے سے ہوئی تو اس نے مجھے وہ سات اعضاء بتائے، اس نے بتایا، میرے پٹھوں، میرے گوشت، میرے خون، میرے بالوں، میری کھال کو نور کر دے اور دو اور چیزیں بتائیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1789
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ بَاتَ لَيْلَةً عِنْدَ مَيْمُونَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ وَهِيَ خَالَتُهُ، قَالَ: فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، " فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ ".
امام مالک نے مخرمہ بن سلیمان سے اور انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مولیٰ کریب سے روایت کی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا کہ انھوں نے ایک رات ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزاری جو ان کی خالہ تھیں، تو میں سرہانے (بستر) کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ اس (بستر) کے طول (لمبائی) میں لیٹے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ رات آدھی ہوئی۔یا اس سے تھوڑا پہلے یا تھوڑا بعد کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدا ر ہوگئے اور اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے چہرے سے نیند زائل کرنے لگے، (چہرے پر ہاتھ پھیرا) پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں، پھر آپ اٹھ کرایک لٹکے ہوے مشکیزے کے پاس گئے اور اس سے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: "میں اٹھا اور میں نے بھی وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاتھا۔پھر جا کر آپ کے پہلو میں کھڑ ہوگیااس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دائیاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے دائیں کان کو پکڑ کر (آہستہ سے) مروڑنے لگے۔پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں پڑھیں۔پھر وتر پڑھا، پھر آپ لیٹ گئے حتیٰ کہ موذن آپ کے پاس آیا تو آ پ کھڑے ہوئے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر تشریف لئے گئے اور صبح کی نماز ادا کی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ انھوں نے ایک رات ام المومنین میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گزاری جو ان کی خالہ تھیں، تو میں سرہانے یعنی بستر) کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ اس کے طول (لمبائی) میں لیٹے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ رات آدھی ہو گئی۔ یا اس سے کچھ قبل یا کچھ بعد، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدا ر ہو گئے اور اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے چہرے سے نیند زائل کرنے لگے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت کی تلاوت فرمائی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کے پاس گئے اور اس سے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہتے ہیں: میں اٹھا اور میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہی عمل کیا پھر جا کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے کان کو پکڑ کر مروڑنے لگے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر دورکعت، پھر دورکعت، پھر دورکعت، پھر دورکعت، پھر دورکعت پڑھیں۔ پھر وتر پڑھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے حتیٰ کہ مؤذن آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلماٹھ کر دو ہلکی ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر تشریف لئے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1790
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْفِهْرِيِّ ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَزَادَ، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى شَجْبٍ مِنْ مَاءٍ، فَتَسَوَّكَ، وَتَوَضَّأَ وَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ وَلَمْ يُهْرِقْ مِنَ الْمَاءِ إِلَّا قَلِيلًا، ثُمَّ حَرَّكَنِي فَقُمْتُ، وَسَائِرُ الْحَدِيثِ نَحْوُ حَدِيثِ مَالِكٍ.
عیاض بن عبداللہ فہری نے مخرمہ بن سلیمان سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی اور یہ اضافہ کیا: پھر آپ نے پانی کے ایک پرانے مشکیزے کا رخ کیا، پھر مسواک کی اور وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، لیکن پانی بہت ہی کم بہایا، پھر مجھے ہلایا اور میں کھڑا ہوگیا۔۔۔باقی ساری حدیث مالک کی حدیث کی طرح ہے۔
مصنف دوسرے استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، جس میں یہ اضافہ ہے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے ایک مشکیزے کا رخ کیا، مسواک کی اور وضو کیا، وضو مکمل کیا لیکن پانی بہت کم بہایا، پھر مجھے حرکت دی اور میں سیدھا ہو گیا، یعنی میری نیند دور ہو گئی۔ باقی حدیث مذکورہ بالا کی طرح ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1791
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: نِمْتُ عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، " فَصَلَّى فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً "، ثُمَّ نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ، ثُمَّ أَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ فَخَرَجَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، قَالَ عَمْرٌو: فَحَدَّثْتُ بِهِ بُكَيْرَ بْنَ الأَشَجِّ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي كُرَيْبٌ بِذَلِكَ.
عمرو نے عبدربہ بن سعید سے، انھوں نے مخرمہ بن سلیمان سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مولیٰ کریب سے اور انھوں نےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سویا اور اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کے پاس تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے، میں آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا تو آپ نے مجھے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کرلیا۔اس رات آپ نے تیرہ رکعتیں پڑھیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ آپ (کے سانسوں) کی آواز آنے لگی، جب آپ سوتے تو سانس لینے کی آوازآتی تھی۔پھر آپ کے پاس موذن آیا تو آپ باہر تشریف لے گئے اور نماز ادا کی، آپ نے (ازسرنو) وضو نہیں کیا۔ عمرو نے کہا میں نے یہ حدیث بکیر بن اشج کو سنائی تو انھوں نے کہا: کریب نے مجھے یہی حدیث سنائی تھی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں سویا اور اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کے پاس تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے، میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکڑ کر اپنی دائیں کر لیا۔ اس رات آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ رکعات پڑھیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کےخراٹے لینے لگے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے خراٹے لیتے تھے پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤذن آیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور نماز پڑھی، اور وضو نہیں کیا۔ عمرو نے کہتےہیں میں نے یہ حدیث بکیر بن اشج کو سنائی تو انھوں نے کہا: کریب نے مجھے یہی حدیث سنائی تھی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1792
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بِتُّ لَيْلَةً عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، فَقُلْتُ لَهَا: إِذَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَيْقِظِينِي، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ الأَيْسَرِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَجَعَلَنِي مِنْ شِقِّهِ الأَيْمَنِ، فَجَعَلْتُ إِذَا أَغْفَيْتُ يَأْخُذُ بِشَحْمَةِ أُذُنِي، قَالَ: " فَصَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ احْتَبَى حَتَّى إِنِّي لَأَسْمَعُ نَفَسَهُ رَاقِدًا، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ".
ضحاک نے مخرمہ بن سلیمان سے، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے ہاں بسر کی، میں نے ان سے عرض کی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیں تو آ پ مجھے بھی بیدار کردیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف میں کردیا، جب مجھے جھپکی آنے لگتی تو آپ میرے کان کی لو پکڑ لیتے، آپ نے گیارہ رکعتیں پڑھیں، پھر آپ نے کمر اور پنڈلیوں کے گرد کپڑا لپیٹ کر اسے سہارا بنا لیا (اور سوگئے) یہاں تک کہ میں آپ کے سونے کی حالت میں آپ کے سانس لینے کی آوازسن رہاتھا۔تو جب آپ کے سامنے صبح ظاہر ہوئی تو آپ نے ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں بسر کی، میں نے ان سے عرض کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیں تو آپ مجھے بھی بیدار کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنی دائیں پہلو میں کر لیا، جب مجھے جھپکی آنے لگتی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم میرے کان کی لو پکڑ لیتے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعات پڑھیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے گوٹھ ماری حتی کہ کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کی وجہ سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سانس کی آوازسن رہاتھا۔ یعنی آپصلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لے رہے تھے تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صبح واصخ ہو گئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1793
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ، " فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ، فَتَوَضَّأَ مِنْ شَنٍّ مُعَلَّقٍ وُضُوءًا خَفِيفًا، قَالَ: وَصَفَ وُضُوءَهُ وَجَعَلَ يُخَفِّفُهُ وَيُقَلِّلُهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخْلَفَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى، ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ أَتَاهُ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ فَخَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، قَالَ سُفْيَانُ: وَهَذَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً لِأَنَّهُ بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ ".
سفیان بن عمرو بن دینار سے، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات بسر کی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را ت کے وقت اٹھے، پھر آپ نے لٹکی ہوئی مشک سے ہلکا وضوکیا (کریب نے) کہا: انھوں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے آپ کے وضو کی کیفیت بیان کی اور وضو کو ہلکا اور کم کرتے رہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اٹھا اور وہی کیا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔پھر آکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا، آپ نے مجھے اپنے پیچھے کیا (اور گھما کر) اپنی دائیں جانب کرلیا۔پھر آپ نے نماز پڑھی۔پھر لیٹ کر سوگئے حتیٰ کہ آوا ز سے سانس لینے لگے۔پھر بلال رضی اللہ عنہ آئے اور آپ کو نماز کی اطلاع دی، آپ باہر تشریف لے گئے اور صبح کی نماز ادا فرمائی اور (نیا) وضو نہ کیا۔ سفیان نے کہا: یہ (نیند کے باوجود وضو کی ضرورت نہ ہونا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا کیونکہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کی آنکھیں سوتی تھیں دل نہیں سوتاتھا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں رات بسر کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را ت کو اٹھے اور بوسیدہ مشک سے جو لٹکی ہوئی تھی وضو کیا، وضو خفیف کیا (کریب نے) کہا: انھوں (ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما) نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کی یہ کیفیت بیان کی پانی کم استعمال کیا اور مرات بھی کم تھے (یعنی اعضاء تین دفعہ نہ دھوئے)،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں: میں نے اٹھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عمل کیا پھر آ کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیچھے سے گھما کر اپنی دائیں جانب کر لیا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔ پھر لیٹ کر سو گئے حتیٰ کہ خواٹے لینے لگے۔ پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آ کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دی، آپصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔ سفیان باین کرتے ہیں: (سو کر اٹہ کر وضو نہ کرنا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1794
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَبَقَيْتُ كَيْفَ يُصَلِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَامَ فَبَالَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الْقِرْبَةِ فَأَطْلَقَ شِنَاقَهَا، ثُمَّ صَبَّ فِي الْجَفْنَةِ أَوِ الْقَصْعَةِ فَأَكَبَّهُ بِيَدِهِ عَلَيْهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا حَسَنًا بَيْنَ الْوُضُوءَيْنِ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَجِئْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَتَكَامَلَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ نَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكُنَّا نَعْرِفُهُ إِذَا نَامَ بِنَفْخِهِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ فَصَلَّى فَجَعَلَ يَقُولُ فِي صَلَاتِهِ أَوْ فِي سُجُودِهِ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ شِمَالِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَاجْعَلْ لِي نُورًا، أَوَ قَالَ وَاجْعَلْنِي نُورًا ".
محمد بن جعفر (غندر) نے کہا: ہم سے شعبہ نے سلمہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کریب سے اور ا نھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے اپنی خالہ میمونہ کے ہاں رات گزاری، میں نے (وہاں رہ کر) مشاہدہ کیا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے ہیں۔کہا: آپ اٹھے، پیشاب کیا، پھر اپنا چہرہ اور ہتھیلیاں دھوئیں۔پھر سوگئے۔آپ (کچھ دیر بعد) پھر اٹھے، مشکیزے کے پاس گئے اور اس کابندھن کھولا، پھر لگن یا پیالے میں پانی انڈیلا اور اس کو اپنے ہاتھ سے جھکایا، پھر دو وضووں کے درمیا کاخوبصورت وضو کیا (وضو نہ بہت ہلکا کیا اور نہ اس میں مبالغہ کیا لیکن اچھی طرح کیا)، پھر اٹھ کر نماز پڑھنے لگے، میں آپ کے پہلو میں کھٹرا ہوگیا، آپ کی بائیں جانب کھٹرا ہوا۔کہا: تو آپ نے مجھے پکڑ کراپنی دائیں جانب کردیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ رکعت نماز مکمل ہوئی، پھر آپ سوگئے حتیٰ کہ سانسوں کی آواز آنے لگی اور جب آپ سوجاتے تو ہم آپ کے سونے کوآپ کے سانس کی آواز سے پہچانتے، پھر آپ نماز کے لئے باہر تشریف لائے اور نماز ادا کی۔اور آپ اپنی نماز یا اپنے سجدے میں یہ دعا مانگنے لگے: "اے اللہ!میرے دل میں نور پیدا کر اور میرے کانوں میں نور پیدا کر اور میری آنکھوں میں نور پیدا کر اور میرے دائیں نور بنا اور میرے بائیں نور پیدا فرما اور میرے آگے اور میرے پیچھے نو ر کر اور میرے اوپر نور کر اور میرے لئے نور بنا۔۔۔یا فرمایا: " مجھے نور بنا۔۔۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں رات گزاری، میں نے (وہاں رہ کر) مشاہدہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے ہیں۔ کہا: آپصلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، پیشاب کیا، پھر اپنا چہرہ اور ہتھیلیاں دھوئیں۔ پھر سو گئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم (کچھ دیر بعد) پھر اٹھے، مشکیزے کے پاس گئے اور اس کا بندھن کھولا، پھر لگن یا پیالے میں پانی انڈیلا اور اس کو اپنے ہاتھ سے جھکایا، پھر دو وضووں کے درمیان کا خوبصورت وضو کیا (وضو نہ بہت ہلکا کیا اور نہ اس میں مبالغہ کیا لیکن اچھی طرح کیا)، پھر اٹھ کر نماز پڑھنے لگے، میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہو گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہوا۔ کہا: تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکڑ کراپنی دائیں جانب کر دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ رکعت نماز مکمل ہوئی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ سانسوں کی آواز آنے لگی اور جب آپصلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سانس کی آواز سے پہچانتے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے باہر تشریف لائے اور نماز ادا کی۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز یا اپنے سجدے میں یہ دعا مانگنے لگے: اے اللہ!میرے دل میں نور پیدا کر اور میرے کانوں میں نور پیدا کر اور میری آنکھوں میں نور پیدا کر اور میرے دائیں نور بنا اور میرے بائیں نور پیدا فرما اور میرے آگے اور میرے پیچھے نو ر کر اور میرے اوپر نور کر اور میرے لئے نور بنا۔۔۔یا فرمایا: مجھے نور بنا۔۔۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1795
وحَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ سَلَمَةُ: فَلَقِيتُ كُرَيْبًا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كُنْتُ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ غُنْدَرٍ، وَقَالَ: وَاجْعَلْنِي نُورًا، وَلَمْ يَشُكَّ.
نضر بن شمیل نے کہا: ہمیں شعبہ نے خبر دی، کہا: ہمیں سلمہ بن کبیل نے بکیر سے حدیث سنائی، انھوں نے کریب سے اور انھوں نے حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ سلمہ نے کہا: میں کریب کو ملا تو انھوں نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اپنی خالہ میمونہ کے ہاں تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔۔۔پھر انھوں نے غندر (محمد بن جعفر) کی حدیث (1794) کی طرح بیان کیا اور کہا: "اور مجھے سراپا نور کردے"اور انھوں نے (کسی بات میں) شک کا اظہار نہ کیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، لیکن اس میں شک کے بغیر (وَاجْعَلْنِي نُورًا) ہے، یعنی مجھے سراپا نور بنا دے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1796
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِي رِشْدِينٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ، وَلَمْ يَذْكُرْ: غَسْلَ الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: ثُمَّ أَتَى الْقِرْبَةَ فَحَلَّ شِنَاقَهَا فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا بَيْنَ الْوُضُوءَيْنِ، ثُمَّ أَتَى فِرَاشَهُ فَنَامَ، ثُمَّ قَامَ قَوْمَةً أُخْرَى فَأَتَى الْقِرْبَةَ فَحَلَّ شِنَاقَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا هُوَ الْوُضُوءُ، وَقَالَ: أَعْظِمْ لِي نُورًا، وَلَمْ يَذْكُرْ: وَاجْعَلْنِي نُورًا.
۔ سعید بن مسروق نے سلمہ بن کہیل سے، انھوں نے ابو رشدین (کریب) مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور ا نھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات گزاری، پھر حدیث بیان کی لیکن اس میں چہرے اور ہتھیلیاں دھونے کاذکر نہیں ہے، ہاں، یہ کہا: پھر آپ مشک کے پاس آئے، اس کا بندھن کھولا، اور دو وضووں کے درمیان کا وضوکیا پھر بستر پر آئے اور سو گئے پھر آپ دوبارہ اٹھے اورمشک کے پاس آئے، اس کابندھن کھولا، پھر دوبارہ وضو کیاجو (صحیح معنی میں) وضوتھا اور کہا: "میرا نور عظیم کردے"اور یہ ہدایت نہیں کیا کہ مجھے سراپا نور کردے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں رات گزاری، پھر حدیث بیان کی لیکن اس میں چہرے اور ہتھیلیاں دھونے کا ذکر نہیں ہے، ہاں، یہ کہا: پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم مشک کے پاس آئے، اس کا بندھن کھولا، اور دو وضووں کے درمیان کا وضوکیا پھر بستر پر آئے اور سو گئے پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اٹھے اورمشک کے پاس آئے، اس کا بندھن کھولا، پھر دوبارہ وضو کیا جو (صحیح معنی میں) وضوتھا اور کہا: میرا نور عظیم کر دے اور یہ روایت نہیں کیا کہ مجھے سراپا نور کر دے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1797
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَلْمَانَ الْحَجْرِيِّ ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ ، أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ كُهَيْلٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ كُرَيْبًا حَدَّثَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ بَاتَ لَيْلَةً عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْقِرْبَةِ فَسَكَبَ مِنْهَا، فَتَوَضَّأَ وَلَمْ يُكْثِرْ مِنَ الْمَاءِ وَلَمْ يُقَصِّرْ فِي الْوُضُوءِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ قَالَ: وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً، قَالَ سَلَمَةُ: حَدَّثَنِيهَا كُرَيْبٌ، فَحَفِظْتُ مِنْهَا ثِنْتَيْ عَشْرَةَ وَنَسِيتُ مَا بَقِيَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي لِسَانِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَمِنْ فَوْقِي نُورًا، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ شِمَالِي نُورًا، وَمِنْ بَيْنِ يَدَيَّ نُورًا، وَمِنْ خَلْفِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي نَفْسِي نُورًا، وَأَعْظِمْ لِي نُورًا ".
عقیل بن خالد سے روایت ہے کہ سلمہ بن کہیل نے ان (عقیل) سے حدیث بیان کی کہ کریب نے ان (سلمہ) سے حدیث بیان کی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک رات رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری، انھوں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر مشکیزے کے پاس گئے اور اس میں سے پانی انڈیلا اور وضو کیا اور آپ نے نہ پانی زیادہ استعمال کیا نہ وضو میں کوئی کمی کی۔۔۔اور پوری حدیث بیا ن کی اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے اس رات انیس کلمات پر مشتمل دعا کی۔ (تمام الفاظ جمع کریں تو انیس بنتے ہیں) سلمہ نے کہا: کریب نے وہ کلمات مجھے بتائے تھے اور میں ان میں سے بارہ کلمات کو یاد رکھ سکا اور باقی بھول گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرمااور میری زبان میں نور پیدا فرما اور میرے کان میں نور پیدا فرما اور میری آنکھ میں نور پیدا فرما اور میرے اوپر نور کردے اور میرے نیچے نور کردے اور میرے دائیں نور کردے اور میرے بائیں نور کردے او ر میرے آگے نور کردے اور میرے پیچھے نور کردے اور میرے اندر نور کردے اور میرے نور کو عظیم کردے۔"
سلمہ بن کہیل کو کریب نے بتایا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری، انھوں (ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما) نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر مشکیزے کے پاس گئے اور اس میں سے پانی انڈیلا اور وضو کیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نہ پانی زیادہ استعمال نہیں کیا لیکن وضو میں کوئی کمی کی۔۔۔ اور پورا واقعہ بیان کیا اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات انیس کلمات کہے۔ سلمہ نے کہتے ہیں: کریب نے وہ کلمات مجھے بتائے تھے اور میں ان میں سے بارہ کلمات کو یاد رکھ سکا اور باقی بھول گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما اور میری زبان میں نور پیدا فرما اور میرے کان میں نور پیدا فرما اور میری آنکھ میں نور پیدا فرما اور میرے اوپر نور کر دے اور میرے نیچے نور کر دے اور میرے دائیں اور میرے بائیں نور کر دے اور میرے آگے اور میرے پیچھے نور کر دے اور میرے اندر نورپیدا فرما اور اور مجھے زیادہ سے زیادہ نور دے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1798
وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي شَرِيكُ بْنُ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: رَقَدْتُ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ، لَيْلَةَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا، لِأَنْظُرَ كَيْفَ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، قَالَ: فَتَحَدَّثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَهْلِهِ سَاعَةً، ثُمَّ رَقَدَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَنَّ.
شریک بن ابی نمر نے کریب سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں ایک رات حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر سویا، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تھے تاکہ میں دیکھوں کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وقت ا پنے گھر والوں کے ساتھ گفتگو فرمائی، پھر آپ سوگئے۔۔۔آگے پوری حدیث بیان کی اور میں یہ بھی تھا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، وضو کیا اور مسواک کیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر سویا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تھے اور میں دیکھنا چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی کیفیت کیسی ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وقت اپنی اہلیہ سے گفتگو فرمائی اورپھر سو گئے، اور پورا واقعہ بیان کیا اور اس میں یہ بھی ہے کہ (پھر اٹھے) وضو کیا اور مسواک کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1799
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ رَقَدَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَيْقَظَ، فَتَسَوَّكَ، وَتَوَضَّأَ، وَهُوَ يَقُولُ: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِي الأَلْبَابِ سورة آل عمران آية 190 فَقَرَأَ هَؤُلَاءِ الآيَاتِ حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَأَطَالَ فِيهِمَا، الْقِيَامَ، وَالرُّكُوعَ، وَالسُّجُودَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، سِتَّ رَكَعَاتٍ كُلَّ ذَلِكَ، يَسْتَاكُ، وَيَتَوَضَّأُ، وَيَقْرَأُ هَؤُلَاءِ الآيَاتِ، ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ، فَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ فَخَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَهُوَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي لِسَانِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي سَمْعِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي بَصَرِي نُورًا، وَاجْعَلْ مِنْ خَلْفِي نُورًا، وَمِنْ أَمَامِي نُورًا، وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِي نُورًا، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا، اللَّهُمَّ أَعْطِنِي نُورًا ".
حبیب بن ابی ثابت نے محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ (ایک رات) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سوئے تو (رات کو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے، مسواک کی اور وضو فرمایا اور آپ (اس وقت) یہ آیا مبارکہ پڑھ رہے تھے: "یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور دن رات کی آمد ورفت میں خالص عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔"یہ آیات تلاوت فرمائیں حتیٰ کہ سورت ختم کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دو ر کعتیں پڑھیں، ان میں بہت طویل قیام، رکوع اور سجدے کیے، پھر واپس پلٹے اور سوگئے یہاں تک کہ آپ کے سانس آواز سنائی دینے لگی، پھر آپ نے سا طرح تین دفعہ کیا، چھ رکعتیں پڑھیں، ہر دفعہ آپ مسواک کرتے، وضوفرماتےاور ان آیات کو تلاوت فرماتے، پھر آپ نے تین وتر پڑھے، پھر موذن نے اذان دی تو آپ نماز کے لئے باہر تشریف لے گئے اور آپ یہ دعا کررہے تھے: "اے اللہ! میرے دل میں نور کردے اور میری زبان میں نور کردے اور میری سماعت میں نور کردے اور میری آنکھ میں نور کردے اور میرے پیچھے نور کردے اور میرے آگے نور کردے اور میرے اوپر نور کردے اور میرے نیچے نورکردے، اے اللہ! مجھے نور عنائیت فرما۔"
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ وہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سوئے پس (تہجد کے وفت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی اور وضو فرمایا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت مبارکہ پڑھ رہے تھے: یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور دن رات کی آمد ورفت میں خالص عقل رکھنے والوں کے لئے اسباق ہیں۔ سورت ال عمران کے ختم تک یہ آیات تلاوت فرمائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دو ر کعتیں پڑھیں، ان قیام رکوع اور سجود بہت طویل کیا پھر بستر کی طرف واپس پلٹے اور سو گئے یہاں تک کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سانس کی آواز سنائی دینے لگی، یعنی خراٹے لینے لگے پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح تین دفعہ کیا، چھ رکعتیں پڑھیں، ہر دفعہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے، وضو فرماتےاور ان آیات کو تلاوت فرماتے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تین وتر پڑھے، پھر مؤذن نے اذان دی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے نکلے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کر رہے تھے: اے اللہ! میرے دل میں نور فرما اور میری زبان میں نور فرما اور میری سمع و بصر میں نور پیدا فرما، اور میرے پیچھے نور کر دے اور میرے آگے نور کر دے اور میرے اوپر نور کر دے اور میرے نیچے نورکر دے، اے اللہ! مجھے نور عنائیت فرما دے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1800
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بِتُّ ذَاتَ لَيْلَةٍ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، " فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصَلِّي مُتَطَوِّعًا مِنَ اللَّيْلِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْقِرْبَةِ فَتَوَضَّأَ، فَقَامَ فَصَلَّى، فَقُمْتُ لَمَّا رَأَيْتُهُ صَنَعَ ذَلِكَ فَتَوَضَّأْتُ مِنَ الْقِرْبَةِ، ثُمَّ قُمْتُ إِلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ، فَأَخَذَ بِيَدِي مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ يَعْدِلُنِي كَذَلِكَ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ إِلَى الشِّقِّ الأَيْمَنِ "، قُلْتُ: أَفِي التَّطَوُّعِ كَانَ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
ابن جریج نے کہا، مجھے عطاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس بسر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نفل نماز پڑھنے کے لئے جاگے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کرمشک کی طرف گئے اور وضو فرمایا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھی، جب میں یہ آپ کو یہ کرتے دیکھا تو میں بھی اٹھا اور میں نے بھی مشک سے وضوکیا، (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے رہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ جاگنے کے بعد غور سے انھیں دیکھتے رہے تاکہ آپ کی اتباع کرسکیں) پھر میں آپ کے بائیں پہلو میں کھڑا ہوگیا تو آپ نے اپنی پشت کے پیچھے سے میراہاتھ پکڑا، ااسی طرح پیچھے سے مجھے دائیں جانب ٹھیک کرکے کھڑا کیا۔ (عطا ء نے کہا:) میں نے پوچھا: کیا یہ نفل نماز میں ہوا تھا؟انھوں نے کہا: ہاں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بسر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نفلی نماز پڑھنے کے لئے اٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر مشک کی طرف گئے اور وضو فرمایا، پھر اٹھ کر نماز شروع کر دی، جب میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے دیکھا تو میں بھی اٹھا اور میں نے بھی مشک سے وضو کیا، پھر میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پشت کے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑا، اسی طرح پیچھے سے مجھے دائیں جانب پھیر لیا۔ عطا ء نے کہتے ہیں میں نے پوچھا: کیا یہ نفل نماز میں ہوا تھا؟ انھوں نے کہا: ہاں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1801
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ سَعْدٍ ، يُحَدِّثُ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بَعَثَنِي الْعَبَّاسُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَبِتُّ مَعَهُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، " فَقَامَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَتَنَاوَلَنِي مِنْ خَلْفِ ظَهْرِهِ فَجَعَلَنِي عَلَى يَمِينِهِ ".
قیس بن سعد، عطاء سے حدیث بیان کرتے ہیں، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے تو وہ رات میں نے آپ کے ساتھ گزاری، آپ رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگےاور میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا تو آپ نے مجھے اپنی پشت کے پیچھے سے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کرلیا (اس حدیث میں مذید یہ تفصیل سامنے آئی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان کے والد نے بھیجاتھا) -
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ مجھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں تھے تو وہ رات میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزاری، آپصلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگےاور میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں کھڑا ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی پشت کے پیچھے سے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر لیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1802
وحَدَّثَنِي ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ.
عبدالملک نے عطاء سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات گزاری۔۔۔آگے ابن جریج اور قیس بن سعد کی روایت کی طرح ہے۔
مصنف نے ایک دوسرے استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763
حدیث نمبر: 1803
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ".
ابو بکر بن ابی شیبہ ابن مثنیٰ، اور ابن بشار نے غندر، شعبہ اور ابوجمرہ کی سند سے حدیث بیان کی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کوتیرہ رکعتیں پڑھاکرتے تھے (یہی رات کی رکعتوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد ہے جس میں دو خفیف رکعتیں شامل ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول گیارہ کاتھا جس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 764
حدیث نمبر: 1804
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: لَأَرْمُقَنَّ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّيْلَةَ، " فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، طَوِيلَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ، فَذَلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ".
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہ انھوں نے (دل میں) کہا: میں آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا (گہری نظر سے) مشاہدہ کروں گا، تو (میں نے دیکھا کہ) آپ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر دو انتہائی لمبی رکعتیں بہت ہی زیادہ لمبی رکعتیں اداکیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں۔جو (ان طویل ترین) رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو ا پنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے کم تر تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلی والی رکعتوں سے کم تھیں، پھر وتر پڑھا تو یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ انھوں نے (دل میں) کہا: میں آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا گہری نظر سے مشاہدہ کروں گا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر بہت ہی زیادہ لمبی رکعتیں ادا کیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ جو ان سے پہلی دو رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے ہلکی تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو ا پنے سے پہلے کی دو رکعتوں سے کم تر تھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں جو اپنے سے پہلی والی رکعتوں سے کم تھیں، پھر وتر پڑھا تو یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 765
حدیث نمبر: 1805
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِيُّ أَبُو جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى مَشْرَعَةٍ، فَقَالَ: أَلَا تُشْرِعُ يَا جَابِرُ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشْرَعْتُ، قَالَ: ثُمَّ ذَهَبَ لِحَاجَتِهِ، وَوَضَعْتُ لَهُ وَضُوءًا، قَالَ: " فَجَاءَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ خَالَفَ بَيْنَ طَرَفَيْهِ، فَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَأَخَذَ بِأُذُنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ ".
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ہم پانی کے ایک گھاٹ پر پہنچے تو آپ نے فرمایا: "جابر!کیا تم سواری کو پلانے کے لئے گھاٹ پر نہیں اتروں گے؟"میں نے کہا: کیوں نہیں!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بھی) گھاٹ پر اترے اور میں بھی اترا، پھر آپ ضرورت کے لئے تشریف لے گئے اور میں نے آپ کے لئے وضو کا پانی رکھ دیا، آپ واپس آئے اور وضو فرمایا، پھر آپ کھڑ ے ہوئے اور ایک کپڑے میں نماز پڑھی جس کے دونوں کنارے آپ نے مخالف سمتوں میں ڈال رکھے تھے (دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر ڈالا) میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا تو آپ نے میرے کان سے پکڑ کر مجھے اپنی دائیں طرف کرلیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ہم ایک گھاٹ پر پہنچے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! کیا تم پانی پلانے کے لئے گھاٹ پر نہیں اترو گے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور میں نے پانی پلانا شروع کیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے اور میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پانی رکھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور وضو فرمایا، پھر اٹھ کر نماز پڑھنی شروع کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالف اطرف پرڈالا ہوا ٹھا یعنی دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر، میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان سے پکڑ کر مجھے اپنے دائیں کر لیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 766
حدیث نمبر: 1806
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ جَمِيعًا، عَنْ هُشَيْمٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو حُرَّةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " إِذَا قَامَ مِنِ اللَّيْلِ لِيُصَلِّيَ، افْتَتَحَ صَلَاتَهُ بِرَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھنے کےلئے اٹھتے، اپنی نماز کا آغاز دو ہلکی رکعتوں سے فرماتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز پڑھنے کے لیے اٹھتے، اپنی نماز کا افتتاح (ابتدا) دو ہلکی رکعتوں سے فرماتے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 767
حدیث نمبر: 1807
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ، فَلْيَفْتَتِحْ صَلَاتَهُ بِرَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ".
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی رات کو (نماز کے لئے) اٹھے تو وہ اپنی نماز کا آغاز دو ہلکی رکعتوں سے کرے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو (نماز کے لیے اٹھے) تو وہ ا پنی نماز کی ابتداء دو ہلکی رکعتوں سے کرے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 768
حدیث نمبر: 1808
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: " إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَمَنْ فِيهِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَقَوْلُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَأَخَّرْتُ وَأَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ، أَنْتَ إِلَهِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ "،
امام مالک ؒ نے ابو زہیر سے، انھوں نے طاؤس سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی آ خری تہائی میں نماز کے لئے اٹھتے تو فرماتے: "اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے، تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہےتو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان میں ہے تو پالنے والا ہے۔اور توبرحق ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تیرا قول اٹل ہے اور تیرے ساتھ ملاقات قطعی ہے اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے۔اے اللہ میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کردیا اور میں تجھ پر ایمان لایا اور میں نے تجھ پر توکل اور بھروسہ کیا اور تیری طرف رجوع کیا اور تیر ی توفیق سے (تیرے منکروں سے) جھگڑا کیا اور تیرے ہی حضور فیصلہ لایا (تجھے ہی حاکم تسلیم کیا) تو بخش دے وہ گناہ جو میں نے پہلے کیے اور جو بعد میں کئے اور جو چھپ کرکئے اور جو ظاہرا کیے تو ہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آدھی رات کو نماز کے لئے اٹھتے تو فرماتے: اے اللہ! تو ہی حمد کاحقدار ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اور تو ہی شکر کا مستحق ہے تو آسمانوں اور زمین نگران ہے اور تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمین کا (اور جو کچھ ان میں ہے) ان کا مالک ہے، اور تو برحق ہے، اور تیرا وعدہ شدنی ہے اور تیرا قول اٹل ہے اور تیری ملاقات قطعی ہے اور جنت موجود ہے اور آگ موجود ہے، اور قیامت واقع ہو کر رہے گی، اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا، اور تجھ ہی پر میں ایمان لایا، اور تجھ ہی پر میں نے اعتماد اور بھروسہ کیا، اور تیری ہی طرف رجوع کیا اور تیر ی ہی توفیق سے تیرے منکروں سے جھگڑا کیا، اور تیرے ہی حضور میں فیصلہ لایا، یعنی تجھے ہی حکم تسلیم کیا، تو میرے اگلے پچھلے، چھپے اور کھلے گناہ بخش دے تو ہی میرا الہ ہے تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 769
حدیث نمبر: 1809
حَدَّثَنَا وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وابن أبي عمر ، عَمْرٌو النَّاقِدُ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ كِلَاهُمَا، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَّا حَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ، فَاتَّفَقَ لَفْظُهُ مَعَ حَدِيثِ مَالِكٍ، لَمْ يَخْتَلِفَا إِلَّا فِي حَرْفَيْنِ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: مَكَانَ قَيَّامُ، قَيِّمُ، وَقَالَ: وَمَا أَسْرَرْتُ، وَأَمَّا حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، فَفِيهِ بَعْضُ زِيَادَةٍ، وَيُخَالِفُ مَالِكًا، وَابْنَ جُرَيْجٍ فِي أَحْرُفٍ.
سفیان اور ابن جریج دونوں نے سلیمان ا حول سے، انھوں نے طاؤس سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ابن جریج اور امام مالک ؒ کی (گزشتہ) حدیث کے الفاظ ایک جیسے ہیں، دو جملوں کے سوا کوئی اختلاف نہیں، ابن جریج نے قیام کے بجائے قیم کہا (معنی ایک ہیں) اور واسررت کی جگہ وما اسررت کہا۔ (سفیان) ابن عینیہ کی حدیث میں کچھ اضافہ ہے، وہ متعدد جملوں میں امام مالکؒ اور ابن جریج سے اختلاف کرتے ہیں۔
یہی روایات امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ابن جریج اور ابن عیینہ نے بھی بیان کی ہیں، ابن جریج اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کے الفاظ یکساں ہیں،صرف دو لفظوں میں اختلاف ہے، ابن جریج نے قَيَّامُ کی بجائے قَيِّمُ کہا اور وَاَسْرَرْتُ کی جگہ وَمَا اَسْرَرْتُ کہا۔ ابن عیينه کی روایت میں کچھ اضافہ ہے،اور بعض کلمات میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ابن جریج کی مخالفت ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 769
حدیث نمبر: 1810
وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ وَهُوَ ابْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَصِيرُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ وَاللَّفْظُ قَرِيبٌ مِنْ أَلْفَاظِهِمْ.
قیس بن سعد نے طاؤس سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی۔ (اس حدیث کے راوی عمران القصیر کے) الفاظ ان (امام مالک، سفیان، ابن جریج) کے الفاظ سے ملتے جلتے ہیں۔
امام صاحب نے ایک دوسری سند سے بھی مذکورہ بالا روایت سے ملتی جلتی روایت بیان کی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 769
حدیث نمبر: 1811
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، وأبو معن الرقاشي ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ، إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: كَانَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَهُ " اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ".
ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے کہا: میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز کے لئے اٹھتے تھے تو کس چیز کے ساتھ نماز کا آغاز کرتے تھے؟انھوں نے جواب دیا: جب آپ رات کو اٹھتے تو نماز کا آ غاز (اس دعا سے) کرتے: "اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب!آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والے!پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے!تیرے بندے جن باتوں میں اختلاف کرتے تھے تو ہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائےگا۔، جن باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے تو ہی ا پنے حکم سے مجھے ان میں سے جو حق ہے اس پر چلا، بے شک تو ہی جسے چاہے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔"
ابو سلمہ بن عبدالرحمان بیان کرتے ہیں، میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز کے لئے اٹھتے تھے تو نماز کا آغاز کون سے کلمات سے کرتےتھے؟ انھوں نے جواب دیا، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم رات کو قیام کرتے تو نماز کا آ غاز اس دعا سے کرتے: اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے آقا اور مالک! آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمانے والے!پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے!تیرے بندے جن باتوں میں اختلاف کررہے ہیں تو ہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ جن باتوں میں اختلاف کیا گیا ہے تو ہی ا پنے مجھے ان میں سے حق پرقائم رکھ یا اپنی توفیق سے مجھے جس حق میں اختلاف کیا گیا ہے، میری راہنمائی فرما، اس بے شک تو ہی سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 770
حدیث نمبر: 1812
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ الْمَاجِشُونُ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: " وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتِي، لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الأَخْلَاقِ، لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا، لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ، وَإِلَيْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ، وَإِذَا رَكَعَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي، وَبَصَرِي، وَمُخِّي، وَعَظْمِي، وَعَصَبِي، وَإِذَا رَفَعَ، قَالَ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، مِلْءَ السَّمَاوَاتِ، وَمِلْءَ الأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، وَإِذَا سَجَدَ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ، ثُمَّ يَكُونُ مِنْ آخِرِ مَا يَقُولُ بَيْنَ التَّشَهُّدِ وَالتَّسْلِيمِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ "،
یوسف ماجثون نے کہا: مجھ سے میرے والد (یعقوب بن ابی سلمہ ماجثون) نے عبدالرحمان اعرج سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبیداللہ بن ابی رافع سے، انھوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ر وایت کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑ ے ہوتے تھے تو فرماتے: "میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کردیا ہے۔جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، ہر طرف سے یکسو ہوکر، اور میں اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں میں سے نہیں، میری نماز اور میری ہر (بدنی ومالی) عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہے جو کائنات کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم ملا ہے اور میں فرمانبرداری کرونے والوں میں سے ہوں۔اے اللہ! تو ہی بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، تو میرا رب ہے میں تیرا بندہ ہوں اور میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہے، اس لئے میرے سارے گناہ بخش دے کیونکہ گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا کوئی نہیں، اور میری بہترین اخلاق کی طرف راہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی راہ پر چلانے والا کوئی نہیں، اور برے اخلاق مجھ سے ہٹا دے، تیرے سوا برے اخلاق کو مجھ سے دور کرنے والا کوئی نہیں، میں تیرے حضور حاضر ہوں اور دونوں جہانوں کی سعادتیں تجھ سے ہیں ہر طرح کی بھلائی تیر ے ہاتھ میں ہے اور برائی کا تیر ی طرف کوئی گزر نہیں ہے میں تیرے ہی سہارے ہوں، اور تیری ہی طرف میرا رخ ہے، تو برکت والا رفعت والا اور بلندی والا ہے میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کر تا ہوں۔" اور جب آپ رکوع کرتے تو فرماتے: "اے اللہ! میں تیرے سامنے جھکا ہوا ہوں اور میں تجھ ہی پر ایمان لایاہوں، اپنے آپ کو تیرے ہی سپرد کر دیا ہے، میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میری رگیں اور میرے پٹھے تیرے ہی حضور جھکے ہوئے ہیں۔" اور جب رکوع سے اٹھتے تو کہتے: "اے اللہ! ہمارے رب، تیرے ہی لئے حمد ہے جس سے آ سمانوں اور زمین کی وسعتیں بھر جائیں اور اس کے بعد جو تو چاہے اس کی وسعتیں بھر جائیں۔" اور جب آپ سجدہ کرتے تو کہتے: "اے اللہ!میں نے تیرے ہی حضور سجدہ کیااور تجھ ہی پر ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نےاسے پیدا کیا، اس کی صورت گری کی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں، برکت والاہے اللہ جو بہترین خالق ہے۔"پھر تشہد اور سلام کے درمیان میں یہ دعا پڑھتے۔"اے اللہ! بخش دے جو خطائیں میں نے پہلے کیں یا بعد میں کیں اور چھپا کر کہیں یا علانیہ کیں اور جو بھی زیادتی میں نے کی اور جس کا مجھ سے زیادہ تمھیں علم ہے (اطاعت اور خیر میں) تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں۔"
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑ ے ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے: میں نے اپنا چھرہ ہر طرف سے یکسو ہو کر، اس ذات کی طرف کر دیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں، میری نماز اور میری قربانی یا میرا ہر دینی عمل اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے، جو کائنات کا آقا ومالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس کا حکم ملا ہے اور میں فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو ہی بادشاہ اور مالک ہے، تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے، تو میرا مالک وآقا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اور میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں،پس میرے سارے گناہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں، اور میری بہترین اخلاق کی طرف راہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی طرف وہنمائی کرنے والا کوئی نہیں، اور برے اخلاق میری طرف سے پھیر دے، تیرے سوا مجھ سے برے اخلاق کو دور کرنے والا کوئی نہیں، تیرے حضور حاضر ہوں اور تیری خدمت واطاعت کے لئے تیارہوں،ہر قسم کی خیروبھلائی تیر ے ہاتھ میں ہے اور برائی کا تیر ی طرف گزر نہیں ہے، مجھے تیرا ہی سہارا ہے، اور تیری ہی طرف میرا رخ ہے، تو برکت والا اور رفعت و بلندی والا ہے، میں تجھ سے بخشش کا سائل ہوں اور تیرے حضور توبہ کر تا ہوں، اور جب آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو فرماتے: اے اللہ! میں تیرے حضور جھکا ہوا ہوں اور میں تجھ پر ایمان لایا ہوں،اور میں نے اپنے آپ کو تیرے ہی سپرد کر دیا ہے، میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میری رگ و پٹھے تیرے ہی حضور جھکے ہوئے ہیں۔ اور جب رکوع سے اٹھتے تو دعا کرتے: اے اللہ! ہمارے رب، تیرے ہی لئے حمد ہے،(ایسی وسیع اور بے انتہا) جس سے آ سمانوں کی وسعتیں بھر جائیں اور زمین کی وسعتیں بھر جائیں اور جوکچھ ان کے درمیان ہے یعنی درمیان کا سارا خلا پر ہوجائے اور ان کے سوا تو جو چاہے وہ بھر جائے۔ اور جب آپصلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو کہتے: اے اللہ!میں تیرے حضوری سجدہ ریز ہوں اور میں تجھ پر ہی ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ کرتا ہے جس نےاسے پیدا کیا،اور اس کی شکل وصورت بنائی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں، اور برکت والا ہے، بہترین خالق۔ پھر تشہد اور سلام کے درمیان آخر میں یہ دعا پڑھتے۔اے اللہ! جو خطائیں میں نے پہلے کیں یا بعد میں کیں اور چھپ کر کیں یا علانیہ کیں، اور جو بھی زیادتی میں نے کی اور جس کا تجھے مجھ سے زیادہ علم ہے، سب معاف کر دے، مجھے بخش تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، اور تیرے سوا عبادت کا مقدورکوئی نہیں ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 771
حدیث نمبر: 1813
وحَدَّثَنَاه زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَمِّهِ الْمَاجِشُونِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ كَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: وَجَّهْتُ وَجْهِي، وَقَالَ: وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، وَقَالَ: وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَقَالَ: وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ، وَقَالَ: وَإِذَا سَلَّمَ، قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ، إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَقُلْ بَيْنَ التَّشَهُّدِ وَالتَّسْلِيمِ.
عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے اپنے چچا الماجثون (یعقوب) بن ابی سلمہ سے اور انھوں نے (عبدالرحمان) اعرج سے اسی سند کے ساتھ یہی حدیث بیان کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا آغاز فرماتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر د عا پڑھتے: وجہت وجہیی اس میں (کے بجائے) "انا من المسلمین" اور میں اطاعت وفرمانبرداری میں اولین (مقام پر فائز) ہوں"کے الفاظ ہیں اور کہا: جب آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو"سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد" کہتے اورصورہ (اس کی صورت گری کی) کے بعد "فاحسن صورہ" (اس کو بہترین شکل وصورت عنایت فرمائی) کے الفاظ کہے اور کہا جب سلام پھیرتے تو کہتے: " اللہم اغفرلی ما قدمت "اے اللہ! بخش دے جو میں نے پہلے کیا۔"حدیث کے آخر تک اور انھوں نے "تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان" کے الفاظ نہیں کہے۔
امام صاحب یہی روایت دوسرے استاد کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں، اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا آغاز کرتے تو اَللہُ اَکْبَر کہنے کے بعد، (وَجَّهْتُ وَجْهِيَ) دعا پڑھتے۔اور اس میں (اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْن) کی بجائے (اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْن) ہے کہ میں سب سے پہلے اطاعت گزار ہوں اور میں اطاعت وفرمانبرداری میں پہلے مقام ومرتبہ پر فائز ہوں۔ اوراس میں ہے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہتے اور (صَوَّرَهُ) کے بعد (فَاَحْسَنَ صُوَرَهُ) (اس کو بہترین شکل وصورت عنایت فرمائی) اور اس میں ہے کہ (اللهم اغْفِرْلِيْ مَاقَدَّمْتُ) والی دعا سلام پھیرنے کے بعد پڑھتے۔ تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان کا ذکر نہیں کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 771