الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب الرِّضَاعِ
رضاعت کے احکام و مسائل
16. باب اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ الْبِكْرِ:
16. باب: باکرہ سے نکاح مستحب ہونے کابیان۔
حدیث نمبر: 3637
حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَارِبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَزَوَّجْتَ؟ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا "، قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ: " فَأَيْنَ أَنْتَ مِنَ الْعَذَارَى وَلِعَابِهَا؟ "، قَالَ شُعْبَةُ: فَذَكَرْتُهُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، فقَالَ: قَدْ سَمِعْتَهُ مِنْ جَابِرٍ، وَإِنَّمَا قَالَ: فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا، وَتُلَاعِبُكَ.
شعبہ نے ہمیں محارب سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: "کیا تم نے نکاح کیا ہے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: "کنواری سے یا دوہاجو (ثیبہ) سے؟" میں نے عرض کی: دوہاجو سے۔ آپ نے فرمایا: "تم کنواریوں اور ان کی ملاعبت (باہم کھیل کود) سے (دور) کہاں رہ گئے؟" شعبہ نے کہا: میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار کے سامنے بیان کی تو انہوں نے کہا: میں نے یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنی تھی اور انہوں نے کہا تھا: "تم نے کنواری سے (شادی) کیوں نہ کی؟ تم اس کے ساتھ کھیلتے وہ تمہارے ساتھ کھیلتی
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نے ایک عورت سے شادی کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: کیا تو نے شادی کر لی ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری لڑکیوں اور ان کی ملاعبت (ہنسی مذاق) سے کیوں غافل رہے؟ شعبہ کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار کو سنائی تو اس نے کہا میں نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا: دوشیزہ سے شادی کیوں نہ کی تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1466
حدیث نمبر: 3638
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ، هَلَكَ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ، أَوَ قَالَ: سَبْعَ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً ثَيِّبًا، فقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا جَابِرُ، تَزَوَّجْتَ "، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَبِكْرٌ أَمْ ثَيِّبٌ "، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، أَوَ قَالَ: تُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ "، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ هَلَكَ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ أَوْ سَبْعَ، وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ أَوْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَجِيءَ بِامْرَأَةٍ تَقُومُ عَلَيْهِنَّ وَتُصْلِحُهُنَّ، قَالَ: " فَبَارَكَ اللَّهُ لَكَ "، أَوَ قَالَ: لِي خَيْرًا، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي الرَّبِيعِ: تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، وَتُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ،
یحییٰ بن یحییٰ اور ابو ربیع زہرانی نے ہمیں حدیث بیان کی، یحییٰ نے کہا: حماد بن زید نے ہمیں عمرو بن دینار سے خبر دی، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ (میرے والد) عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور پیچھے نو بیٹیاں۔۔ یا کہا: سات بیٹیاں۔۔ چھوڑیں تو میں نے ایک ثیبہ (دوہاجو) عورت سے نکاح کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: "جابر! نکاح کر لیا ہے؟"میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: "کنواری ہے یا دوہاجو؟" میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! دوہاجو ہے۔ آپ نے فرمایا: "کنواری کیوں نہیں، تم اس سے دل لگی کرتے، وہ تم سے دل لگی کرتی۔۔ یا فرمایا: تم اس کے ساتھ ہنستے کھیلتے، وہ تمہارے ساتھ ہنستی کھیلتی۔۔" میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: (میرے والد) عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور پیچھے نو۔۔ یا سات۔۔ بیٹیاں چھوڑیں، تو میں نے اچھا نہ سمجھا کہ میں ان کے پاس انہی جیسی (کم عمر) لے آؤں۔ میں نے چاہا کہ ایسی عورت لاؤں جو ان کی نگہداشت کرے اور ان کی اصلاح کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تمہیں برکت دے!"یا آپ نے میرے لیے خیر اور بھلائی کی دعا فرمائی۔ اور ابوربیع کی روایت میں ہے: "تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی اور تم اس کے ساتھ ہنستے کھیلتے، وہ تمہارے ساتھ ہنستی کھیلتی
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میرے والد عبداللہ فوت ہو گئے اور نو یا سات بیٹیاں چھوڑ گئے تو میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی، اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے جابر! تو نے شادی کر لی ہے؟ میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کنواری ہے یا بیوہ؟ میں نے کہا: وہ تو بیوہ ہے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا: دوشیزہ سے شادی کیوں نہ کی، تو اس سے کھیلتا وہ تم سے کھیلتی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس سے ہنستا مسکراتا وہ تم سے ہنستی مسکراتی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ عبداللہ نے وفات کے وقت نو یا سات بیٹیاں چھوڑیں، اور میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ ان کے پاس ان جیسی نو عمر بیاہ لاؤں، اور اس بات کو پسند کیا، ان کے پاس ایسی عورت لاؤں جو ان کی خبر گیری اور اصلاح کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہیں برکت دے۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے خیر کے کلمات کہے، ابو ربیع کی روایت میں ہے: تم اس سے کھیلتے، وہ تم سے کھیلتی، تم اس سے خوش طبعی کرتے وہ تم سے خوش مذاقی کرتی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1466
حدیث نمبر: 3639
وحدثناه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ نَكَحْتَ يَا جَابِرُ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ إِلَى قَوْلِهِ: امْرَأَةً تَقُومُ عَلَيْهِنَّ وَتَمْشُطُهُنَّ، قَالَ: أَصَبْتَ وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ.
سفیان نے ہمیں عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: "جابر! کیا تم نے نکاح کر لیا ہے؟" اور آگے یہاں تک بیان کیا: ایسی عورت جو اُن کی نگہداشت کرے اور ان کی کنگھی کرے، آپ نے فرمایا: "تم نے ٹھیک کیا۔" اور انہوں نے اس کے بعد والا حصہ بیان نہیں کیا
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: اے جابر! تو نے نکاح کر لیا ہے؟ لیکن روایت صرف یہاں تک بیان کی ہے۔ ایسی عورت لاؤں جو ان کی دیکھ بھال کرے اور انہیں کنگھی کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ٹھیک کام کیا۔ بعد والا حصہ بیان نہیں کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1466
حدیث نمبر: 3640
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنا هُشَيْمٌ ، عَنْ سَيَّارٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَلَمَّا أَقْبَلْنَا تَعَجَّلْتُ عَلَى بَعِيرٍ لِي قَطُوفٍ، فَلَحِقَنِي رَاكِبٌ خَلْفِي فَنَخَسَ بَعِيرِي بِعَنْزَةٍ كَانَتْ مَعَهُ، فَانْطَلَقَ بَعِيرِي كَأَجْوَدِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ الْإِبِلِ فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، فقَالَ: " مَا يُعْجِلُكَ يَا جَابِرُ؟ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، فقَالَ: " أَبِكْرًا تَزَوَّجْتَهَا أَمْ ثَيِّبًا؟ "، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا، قَالَ: " هَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا، وَتُلَاعِبُكَ "، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ ذَهَبْنَا لِنَدْخُلَ، فقَالَ: " أَمْهِلُوا حَتَّى نَدْخُلَ لَيْلًا أَيْ عِشَاءً، كَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ، وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ "، قَالَ: وَقَالَ: إِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ.
شعبی نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے۔ جب ہم واپس ہوئے تو میں نے اپنے سست رفتار اونٹ کو تھوڑا سا تیز کیا، میرے ساتھ پیچھے سے ایک سوار آ کر ملا انہوں نے لوہے کی نوک والی چھڑی سے جو ان کے ساتھ تھی، میرے اونٹ کو کچوکا لگایا، تو وہ اتنا تیز چلنے لگا جتنا آپ نے کسی بہترین اونٹ کو (تیز چلتے ہوئے) دیکھا، آپ نے پوچھا: "جابر! تمہیں کس چیز نے جلدی میں ڈال رکھا ہے؟" میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔ آپ نے پوچھا: "باکرہ سے شادی کی ہے یا ثیبہ (دوہاجو) سے؟" انہوں نے عرض کی: ثیبہ سے۔ آپ نے فرمایا: "تم نے کسی (کنواری) لڑکی سے کیوں نہ کی، تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے، وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی؟" کہا: جب ہم مدینہ آئے، (اس میں) داخل ہونے لگے تو آپ نے فرمایا: "ٹھہر جاؤ، ہم رات۔۔ یعنی عشاء۔۔ کے وقت داخل ہوں، تاکہ پراگندہ بالوں والی بال سنوار لے اور جس جس کا شوہر غائب رہا، وہ بال (وغیرہ) صاف کر لے۔" اور فرمایا: "جب گھر پہنچنا تو عقل و تحمل سے کام لینا (حالت حیض میں جماع نہ کرنا
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، ہم ایک جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو جب ہم واپس آئے، تو میں نے اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز کرنا چاہا۔ تو مجھے پیچھے سے ایک سوار ملا، اور اس نے اپنی چھڑی سے اسے کچوکا لگایا، تو میرا اونٹ انتہائی تیز رفتاری سے چلنے لگا۔ جتنا تیز رفتار اونٹ کبھی تو نے چلتے دیکھا ہو گا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے جابر! تمہیں تیزی کیوں ہے؟ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا، بلکہ بیوہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوشیزہ سے کیوں نہ کی تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی؟ جب ہم مدینہ پہنچے اور گھروں میں داخل ہونے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رک جاؤ تاکہ ہم رات کو داخل ہوں، پراگندہ بال، کنگھی کر سکے اور جس عورت کا خاوند گھر سے باہر ہے وہ زیر ناف بال صاف کر لے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب گھر پہنچو، تو دانش مندی اور سمجھ داری سے کام لینا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1466
حدیث نمبر: 3641
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيَّ ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَبْطَأَ بِي جَمَلِي فَأَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ لِي: " يَا جَابِرُ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " مَا شَأْنُكَ "، قُلْتُ: أَبْطَأَ بِي جَمَلِي وَأَعْيَا فَتَخَلَّفْتُ، فَنَزَلَ فَحَجَنَهُ بِمِحْجَنِهِ، ثُمَّ قَالَ: " ارْكَبْ "، فَرَكِبْتُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي أَكُفُّهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " أَتَزَوَّجْتَ "، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فقَالَ: " أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا "، فَقُلْتُ: بَلْ ثَيِّبٌ، قَالَ: " فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ "، قُلْتُ: إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ امْرَأَةً تَجْمَعُهُنَّ وَتَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ: " أَمَا إِنَّكَ قَادِمٌ، فَإِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ، ثُمَّ قَالَ: أَتَبِيعُ جَمَلَكَ "، قُلْتُ: نَعَمْ، فَاشْتَرَاهُ مِنِّي بِأُوقِيَّةٍ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدِمْتُ بِالْغَدَاةِ، فَجِئْتُ الْمَسْجِدَ، فَوَجَدْتُهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فقَالَ: " الْآنَ حِينَ قَدِمْتَ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَدَعْ جَمَلَكَ وَادْخُلْ، فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ "، قَالَ: فَدَخَلْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ، فَأَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَزِنَ لِي أُوقِيَّةً، فَوَزَنَ لِي بِلَالٌ، فَأَرْجَحَ فِي الْمِيزَانِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَلَمَّا وَلَّيْتُ، قَالَ: " ادْعُ لِي جَابِرًا "، فَدُعِيتُ فَقُلْتُ: الْآنَ يَرُدُّ عَلَيَّ الْجَمَلَ، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْهُ، فقَالَ: " خُذْ جَمَلَكَ وَلَكَ ثَمَنُهُ ".
وہب بن کیسان نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں نکلا تھا، میرے اونٹ نے میری رفتار سست کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: "جابر!" میں نے عرض کی: جی۔ آپ نے پوچھا: "کیا معاملہ ہے؟" میں نے عرض کی: میرے لیے میرا اونٹ سست پڑ چکا ہے اور تھک گیاہے، اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ آپ (اپنی سواری سے) اترے اور اپنی مڑے ہوئے سرے والی چھڑی سے اسے کچوکا لگایا، پھر فرمایا: "سوار ہو جاؤ۔" میں سوار ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے خود کو دیکھا کہ میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی اونٹنی) سے (آگے بڑھنے سے) روک رہا ہوں۔ پھر آپ نے پوچھا: "کیا تم نے شادی کر لی؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: "کنواری سے یا دوہاجو سے؟" میں نے عرض کی: دوہاجو ہے۔ آپ نے فرمایا: " (کنواری) لڑکی سے کیوں نہ کی، تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے، وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی۔" میں نے عرض کی: میری (چھوٹی) بہنیں ہیں۔ میں نے چاہا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جو ان کی ڈھارس بندھائے، ان کی کنگھی کرے اور ان کی نگہداشت کرے۔ آپ نے فرمایا: "تم (گھر) پہنچنے والے ہو، جب پہنچ جاؤ تو احتیاط اور عقل مندی سے کام لینا۔" پھر پوچھا: "کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں، چنانچہ آپ نے وہ (اونٹ) مجھ سے ایک اوقیہ (چاندی کی قیمت) میں خرید لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے اور میں صبح کے وقت پہنچا، مسجد میں آیا تو آپ کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "ابھی پہنچے ہو؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "اپنا اونٹ چھوڑو اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کرو۔" میں مسجد میں داخل ہوا، نماز پڑھی، پھر (آپ کے پاس) واپس آیا تو آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ (چاندی) تول دیں، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے وزن کیا، اورترازو کو جھکایا (اوقیہ سے زیادہ تولا۔) کہا: اس کے بعد میں چل پڑا، جب میں نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا: "جابر کو میرے پاس بلاؤ۔" مجھے بلایا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا: اب آپ میرا اونٹ (بھی) مجھے واپس کر دیں گے۔ اور مجھے کوئی چیز اس سے زیادہ ناپسند نہ تھی (کہ میں قیامت وصول کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا اونٹ بھی واپس لے لوں۔) آپ نے فرمایا: "اپنا اونٹ لے لو اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا اونٹ سست رفتار چلنے لگا، میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جابر ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ میں نے عرض کیا، میرا اونٹ آہستہ آہستہ چلنے لگا ہے وہ تھک گیا ہے اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے اور اسے خمیدہ چھڑی سے کچوکا لگایا، پھر فرمایا: سوار ہو جا تو میں سوار ہو گیا، اور میں اپنے اونٹ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ گے بڑھنے سے روک رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو نے شادی کر لی ہے؟ میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا، بلکہ وہ ثیب (بیوہ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوشیزہ سے کیوں نہیں، تم باہمی اٹھکیلیاں کرتے؟ میں نے عرض کیا، میری بہنیں ہیں، اس لیے میں نے چاہا ایسی عورت سے شادی کروں جو انہیں اپنے دامن میں لے، ان کی کنگھی پٹی کرے اور ان کی دیکھ بھال رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تم پہنچ رہے ہو، تو جب گھر پہنچو، عقل اور احتیاط سے کام لینا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اپنا اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے بعد) جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اسے ایک اوقیہ (چالیس درہم) میں خرید لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ) پہنچے اور صبح کو میں بھی (اپنے محلہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں مسجد میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے مسجد کے دروازہ پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابھی پہنچے ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے اونٹ کو چھوڑ دے اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ۔ میں نے مسجد میں جا کر نماز پڑھی اور پھر واپس آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مجھے چالیس درہم تول دے، بلال نے مجھے چاندی تول دی اور ترازو جھکایا، میں لے کر چل دیا۔ جب میں نے پشت پھیری، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جابر کو بلاؤ۔ مجھے بلایا گیا تو میں نے سوچا، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اونٹ واپس کر دیں گے، اور مجھے اس سے زیادہ ناپسند کوئی اور چیز نہ تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا اونٹ لے لو، اور تمہیں اس کی قیمت بھی دی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1467
حدیث نمبر: 3642
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حدثنا الْمُعْتَمِرُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، حدثنا أَبُو نَضْرَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا فِي مَسِيرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ إِنَّمَا هُوَ فِي أُخْرَيَاتِ النَّاسِ، قَالَ: فَضَرَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَ قَالَ: نَخَسَهُ أُرَاهُ، قَالَ بِشَيْءٍ كَانَ مَعَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَقَدَّمُ النَّاسَ يُنَازِعَنِي حَتَّى إِنِّي لِأَكُفُّهُ، قَالَ: فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَبِيعَنْيهِ بِكَذَا وَكَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ "، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: " أَتَبِيعَنْيهِ بِكَذَا وَكَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ "، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ وَقَالَ لِي: " أَتَزَوَّجْتَ بَعْدَ أَبِيكَ؟ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " ثَيِّبًا أَمْ بِكْرًا "، قَالَ: قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ: " فَهَلَّا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُضَاحِكُكَ وَتُضَاحِكُهَا، وَتُلَاعِبُكَ وَتُلَاعِبُهَا "، قَالَ أَبُو نَضْرَةَ: فَكَانَتْ كَلِمَةً يَقُولُهَا الْمُسْلِمُونَ: افْعَلْ كَذَا وَكَذَا وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ.
ابونضرہ نے ہمیں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اور میں ایک پانی ڈھونے والے اونٹ پر (سوار) تھا۔ اور وہ پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے ساتھ تھا۔ کہا: آپ نے اسے۔۔ میرا خیال ہے، انہوں نے کہا: اپنے پاس موجود کسی چیز سے۔۔ مارا، یا کہا: کچوکا لگایا، کہا: اس کے بعد وہ لوگوں (کے اونٹوں) سے آگے نکلنے لگا، وہ مجھ سے کھینچا تانی کرنے لگا حتیٰ کہ مجھے اس کو روکنا پڑتا تھا۔ کہا: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم مجھے یہ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف فرمائے!" کہا: میں نے عرض کی۔ اللہ کے نبی! وہ آپ ہی کا ہے۔ آپ نے (دوبارہ) پوچھا: "کیا تم مجھے وہ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہارے گناہ معاف فرمائے!" کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے نبی! وہ آپ کا ہے۔ کہا: اور آپ نے مجھ سے (یہ بھی) پوچھا: "کیا اپنے والد (کی وفات) کے بعد تم نے نکاح کر لیا ہے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: "دوہاجو (شوہر دیدہ) سے یا دوشیزہ سے؟" میں نے عرض کی: دوہاجو سے۔ آپ نے فرمایا: "تم نے کنواری سے کیوں نہ شادی کی، وہ تمہارے ساتھ ہنستی کھیلتی اور تم اس کے ساتھ ہنستے کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی، تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے؟" ابونضرہ نے کہا: یہ ایسا کلمہ تھا جسے مسلمان (محاورتا) کہتے تھے کہ ایسے ایسے کرو، اللہ تمہارے گناہ بخش دے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں چل رہے تھے اور میں پانی پلانے والے اونٹ پر سوار تھا۔ جو سب لوگوں کے پیچھے تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی چیز سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی مارا یا کچوکا لگایا تو وہ اس کے بعد سب لوگوں سے آ گے نکلنے لگا۔ وہ میرے روکنے پر مجھ سے کشمکش کرتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: کیا تم مجھے یہ اتنی اتنی قیمت پر دیتے ہو، اور اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ آپ کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے یہ اتنی اتنی قیمت پر بیچتے ہو؟ اللہ تمہیں معاف فرمائے۔ میں نے عرض کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: کیا اپنے باپ کے بعد تو نے شادی کر لی ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: بیوہ سے یا کنواری سے؟ میں نے عرض کیا، بیوہ سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے شادی کیوں نہ کی تم اس سے خوش طبعی کرتے وہ تم میں سے خوش لگی کرتی، وہ تم سے دل لگی کرتی تم اس سے دل لگی کرتے؟ ابو نضرہ کہتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ محاورہ اور روزمرہ کا معمول تھا یا تکیہ کلام تھا۔ وہ کہتے یہ یہ کام کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1467