الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ
توبہ کا بیان
8. باب قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ:
8. باب: قاتل کی توبہ کا قبول ہونا خواہ اس نے زیادہ قتل کیے ہوں۔
حدیث نمبر: 7008
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَقَالَ: لَا، فَقَتَلَهُ، فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدِ اللَّهَ مَعَهُمْ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ، فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ، وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ: إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ، فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ، فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ: قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَيْنِ، فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ، فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ، فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ "، قَالَ قَتَادَةُ: فَقَالَ الْحَسَنُ: ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَتَاهُ الْمَوْتُ نَأَى بِصَدْرِهِ.
ہشام نے قتادہ سے، انہوں نے ابوصدیق سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص تھا اس نے ننانوے قتل کیے، پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا (کہ وہ کون ہے۔) اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا۔ وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ (کی کوئی سبیل) ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس (کے قتل) سے سو قتل پورے کر لیے۔ اس نے پھر اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا۔ تو اس نے (جا کر) کہا: اس نے سو قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ (کا امکان) ہے؟ اس (عالم) نے کہا: ہاں، اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ، وہاں (ایسے) لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آو، یہ بُری (باتوں سے بھری ہوئی) سرزمین ہے۔ وہ چل پڑا، یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کر لیا تو اسے موت آ لیا۔ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا: اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا۔ تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا، انہوں نے اسے اپنے درمیان (ثالث) مقرر کر لیا۔ اس نے کہا: دونوں زمینوں کے درمیان فاصلہ ماپ لو، وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ اسی (زمین کے لوگوں) میں سے ہو گا۔ انہوں نے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا، چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔" قتادہ نے کہا: حسن (بصری) نے کہا: (اس حدیث میں) ہمیں بتایا گیا کہ جب اسے موت نے آ لیا تھا تو اس نے اپنے سینے سے (گھسیٹ کر) خود کو (گناہوں بھری زمین سے) دور کر لیا تھا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم سے پہلی امت میں ایک آدمی تھا، اس نے ننانوے آدمی قتل کر ڈالے، پھر اس نے(لوگوں سے) زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اس کو ایک راہب کا پتہ بتادیا گیا، چنانچہ وہ اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا صورت حال یہ ہے وہ ننانوے آدمیوں کو قتل کر چکا ہے کیا اب اس کے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ راہب نے کہا، نہیں، اس نے اس کو بھی قتل کر ڈالا اور اس کے سمیت سو پورے کر دئیے، پھر اس نے زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو (لوگوں نے) اس کو ایک عالم آدمی کا پتہ بتلایا،(وہ اس کے پاس گیا) اور پوچھا وہ سو آدمیوں کا قتل کر چکا ہے، کیا اس کے لیے توبہ کا امکان ہے؟ تو اس نے کہا، ہاں، اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں بستی کی طرف چلے جاؤ کیونکہ وہاں ایسے لوگ ہیں، جو اللہ کی بندگی کرتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ، رہ کر اللہ کی بندگی میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سر زمین (علاقہ) کی طرف مت لوٹو، کیونکہ وہ بری سر زمین ہے تو وہ چل پڑا، حتی کہ جب اس نے آدھا راستہ طے کرلیا، اسے موت نے آلیا، چنانچہ اس کے بارے میں یعنی اس کی روح لینے کے سلسلے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہو گیا، رحمت کے فرشتوں نے کہا، یہ دل سے متوجہ ہو کر،توبہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف بڑھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا، واقعہ یہ ہے،اس نے کبھی نیکی کا کام نہیں کیا، (اس لیے یہ نیک اور رحمت کا مستحق کیسے بنا) چنانچہ ان کے پاس (اللہ کےحکم سے) ایک فرشتہ انسانی شکل میں آیا، دونوں قسم کے فرشتوں نے (اپنے جھگڑنے کا) حکم مان لیا تو اس نے(انسان ن فرشتے نے) کہا، دونوں زمینوں (گناہ کی بستی اور عبادت گزار بندوں کی بستی) کے درمیانی علاقہ کی پیمائش کر لو تو جس بستی کی طرف زیادہ قریب ہو تو وہ اس کا باشندہ ہو گا تو انھوں نے پیمائش کی تو اسے اس علاقہ کے زیادہ قریب پایا، جس کے ارادے سے وہ جا رہا تھا، اس لیے اس کی روح کو رحمت کے فرشتوں نے اپنے قبضہ میں لیا۔"حسن رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ہمیں بتایا گیا، اسے جب موت نے آلیا وہ اپنے سینہ سے آگے کی طرف بڑھا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2766
حدیث نمبر: 7009
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الصِّدِّيقِ النَّاجِيَّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَجَعَلَ يَسْأَلُ هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لَيْسَتْ لَكَ تَوْبَةٌ، فَقَتَلَ الرَّاهِبَ، ثُمَّ جَعَلَ يَسْأَلُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَى قَرْيَةٍ فِيهَا قَوْمٌ صَالِحُونَ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَنَأَى بِصَدْرِهِ ثُمَّ مَاتَ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَكَانَ إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ أَقْرَبَ مِنْهَا بِشِبْرٍ، فَجُعِلَ مِنْ أَهْلِهَا "،
معاذ بن عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث سنائی، انہوں نے ابو صدیق ناجی سے سنا، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: "ایک شخص نے ننانوے انسان قتل کیے، پھر اس نے یہ پوچھنا شروع کر دیا: کیا اس کی توبہ (کی کوئی سبیل) ہو سکتی ہے؟ وہ ایک راہب کے پاس آیا، اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: تیرے لیے کوئی توبہ نہیں۔ اس نے اس راہب کو (بھی) قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس نے پھر سے (توبہ کے متعلق) پوچھنا شروع کر دیا، پھر ایک بستی سے (دوسری) بستی کی طرف نکل پڑا جس میں نیک لوگ رہتے تھے۔ وہ راستے کے کسی حصے میں تھا کہ اسے موت نے آن لیا، وہ (اس وقت) اپنے سینے کے ذریعے سے (پچھلی گناہوں بھری بستی سے) دور ہوا، پھر مر گیا۔ تو اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں نے آپس میں جھگڑا کیا۔ تو وہ شخص ایک بالشت برابر نیک بستی کی طرف قریب تھا، اسے اس بستی کے لوگوں میں سے (شمار) کر لیا گیا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتےہیں ایک آدمی نے ننانوے آدمی قتل کر ڈالے پھر پوچھنے لگا، کیا اس کی توبہ کی کوئی گنجائش ہے؟ چنانچہ وہ ایک راہب کے پاس آیا اور اس سے پوچھا اس نے جواب دیا۔ تیرے لیے توبہ کا امکان نہیں ہے تو اس نے راہب کو بھی قتل کر دیا۔ پھر پوچھنے لگا پھر وہ اپنی بستی سے اس بستی کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ جس میں نیک لوگ رہتے تھے تو جب اس نے کچھ راستہ طے کر لیا اسے موت نے آلیا سو وہ اپنے سینے سے آگے بڑھا،پھر مر گیا تو اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا شروع ہو گیا تو وہ اچھی بستی کی طرف ایک بالشت زیادہ قریب تھا، اس لیے اس کو اس کے باشندوں میں سے شمار کیا گیا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2766
حدیث نمبر: 7010
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ مُعَاذٍ، وَزَادَ فِيهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي وَإِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِي.
شعبہ نے ہمیں قتادہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح معاذ بن معاذ کی حدیث ہے اور اس میں مزید یہ کہا: "تو اللہ نے اس (گناہگاروں کی بستی) کو وحی کر دی کہ تو دور ہو جا اور اس (نیک لوگوں کی بستی) کو وحی کر دی کہ تو قریب ہو جا۔"
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں اس میں یہ اضافہ ہے۔"سو اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا دور ہو جاؤ اور اس کو حکم دیا، قریب ہو جا۔" یعنی نیکیوں کی بستی اللہ کے حکم سے قریب ہو گئی اور بروں کی بستی کی مسافت دور ہو گئی اسی طرح وہ نیک لوگوں کی بستی کا باشندہ بن گیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2766