انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 782]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1382)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 89 (743)، صحیح مسلم/الصلاة 13 (399)، سنن الترمذی/الصلاة 68 (246)، سنن النسائی/الافتتاح 20 (903)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 4 (813)، موطا امام مالک/الصلاة 6 (30)، مسند احمد (3/101، 111، 114، 183، 273)، سنن الدارمی/الصلاة 34 (1276) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (743) صحيح مسلم (399)¤ وأخرجه البخاري في جزء القراء ة (125)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر تحریمہ «الله اكبر» اور «الحمد لله رب العالمين» کی قرآت سے شروع کرتے تھے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاتے، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ بالکل سیدھے بیٹھ جاتے، اور ہر دو رکعت کے بعد «التحيات» پڑھتے، اور جب بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور اپنا داہنا پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے ۱؎ سے اور درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے ۲؎ سے منع کرتے اور نماز سلام سے ختم کرتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 783]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 46 (498)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 4 (812)، (تحفة الأشراف: 16040)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/31، 110، 171، 194، 281)، سنن الدارمی/الصلاة 31 (1272) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد شیطان کی مانند دونوں قدموں کا گاڑ کر ایڑیوں پر بیٹھنا ہے تشہد میں یہ بیٹھک حرام ہے جبکہ دونوں سجدوں کے درمیان اس طرح کی بیٹھک مسنون و مشروع ہے۔ ۲؎: اس سے مراد سجدہ میں دونوں ہاتھوں کو زمین پر بچھانا ہے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «بسم الله الرحمن الرحيم * إنا أعطيناك الكوثر» یہاں تک کہ آپ نے پوری سورۃ ختم فرما دی، پھر پوچھا: ”تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے؟“، لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوثر ایک نہر کا نام ہے، جسے میرے رب نے مجھے جنت میں دینے کا وعدہ کیا ہے“۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 784]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 14 (400)، الفضائل 9 (2304)، سنن النسائی/الافتتاح 21 (905)، (تحفة الأشراف: 1575)، مسند احمد (3/102، 281)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر الکوثر (3359)، ویأتي عند المؤلف في السنة برقم: (4747) (حسن)»
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا: «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم»۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 785]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16424)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/197) (ضعیف شاذ)» (یہ حدیث شاذ اس لئے ہے کہ حمید اگرچہ ثقہ ہیں مگر انہوں نے ثقہ جماعت کی مخالفت کی ہے)
وضاحت: ۱؎: ” یعنی بے شک جو لوگ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم ہی میں سے ایک گروہ ہے “(سورہ نور: ۱۱)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ الزھري عنعن وھو مدلس¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 41