الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
127. باب مَنْ جَهَرَ بِهَا
127. باب: «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 786
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مَا حَمَلَكُمْ أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى بَرَاءَةَ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ وَإِلَى الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، فَجَعَلْتُمُوهُمَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ وَلَمْ تَكْتُبُوا بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ؟ قَالَ عُثْمَانُ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا تَنَزَّلُ عَلَيْهِ الْآيَاتُ فَيَدْعُو بَعْضَ مَنْ كَانَ يَكْتُبُ لَهُ، وَيَقُولُ لَهُ: ضَعْ هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، وَتَنْزِلُ عَلَيْهِ الْآيَةُ وَالْآيَتَانِ، فَيَقُولُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَكَانَتْ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَّلِ مَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَتْ بَرَاءَةُ مِنْ آخِرِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، وَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهَةً بِقِصَّتِهَا فَظَنَنْتُ أَنَّهَا مِنْهَا، فَمِنْ هُنَاكَ وَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطِّوَالِ وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کو کس چیز نے ابھارا کہ آپ سورۃ برات کا جو کہ «مئین» ۱؎ میں سے ہے، اور سورۃ الانفال کا جو کہ «مثانی» ۲؎ میں سے ہے قصد کریں تو انہیں سات لمبی سورتوں میں کر دیں اور ان دونوں (یعنی انفال اور برات) کے درمیان میں «بسم الله الرحمن الرحيم» نہ لکھیں؟ عثمان نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ کاتب کو بلاتے اور ان سے فرماتے: اس آیت کو اس سورۃ میں رکھو، جس میں ایسا ایسا (قصہ) مذکور ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ایک دو دو آیتیں اترا کرتیں تو آپ ایسا ہی فرمایا کرتے، اور سورۃ الانفال ان سورتوں میں ہے جو پہلے پہل مدینہ میں آپ پر اتری ہیں، اور برات ان سورتوں میں سے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آخر میں اتری ہیں اور سورۃ برات کا مضمون سورۃ الانفال کے مضمون سے ملتا جلتا ہے، اس وجہ سے مجھے گمان ہوا کہ شاید برات (توبہ) انفال میں داخل ہے، اسی لیے میں نے دونوں کو «سبع طوال» ۳؎ میں رکھا اور دونوں کے بیچ میں «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 786]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/تفسیر القرآن 10 (3086)، (تحفة الأشراف: 9819)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/57، 69) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یزید الفارسی لین الحدیث ہیں)

وضاحت: ۱؎: «مئین» ان سورتوں کو کہتے ہیں جو سو (۱۰۰) سے زیادہ آیتوں پر مشتمل ہوں۔
۲؎: «مثانی» وہ سورتیں ہیں جو «مئین» سے چھوٹی ہیں۔
۳؎: «سبع طوال» سے مراد بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام اور اعراف ہیں اور ساتویں کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ وہ انفال اور براہ (دونوں ایک ساتھ) ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ سورہ یونس ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ مشكوة المصابيح (2222)¤ أخرجه الترمذي (3086 وسنده حسن) يزيد الفارسي و ثقه ابن حبان و الترمذي وغيرهما فھو حسن الحديث و أخطأ من ضعّف ھذا الحديث

حدیث نمبر: 787
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُعَاوِيَةَ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ الْأَعْرَابِيُّ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ فِيهِ: فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ الشَّعْبِيُّ، وَأَبُو مَالِكٍ، وَقَتَادَةُ، وَثَابِتُ بْنُ عُمَارَةَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَتَّى نَزَلَتْ سُورَةُ النَّمْلِ هَذَا مَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی روایت آئی ہے، اس میں ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، اور آپ نے ہم سے بیان نہیں کیا کہ سورۃ برات انفال میں سے ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شعبی، ابو مالک، قتادہ اور ثابت بن عمارہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں لکھا یہاں تک کہ سورۃ النمل نازل ہوئی، یہی اس کا مفہوم ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 787]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 9819) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ انظر الحديث السابق (786)

حدیث نمبر: 788
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ قُتَيْبَةُ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَعْرِفُ فَصْلَ السُّورَةِ حَتَّى تَنَزَّلَ عَلَيْهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ"، وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ السَّرْحِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ کی حد و انتہا کو نہیں جان پاتے تھے، جب تک کہ «بسم الله الرحمن الرحيم» آپ پر نہ اتر جاتی، یہ ابن سرح کی روایت کے الفاظ ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 788]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5584، 18678) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ مشكوة المصابيح (2218)¤ أخرجه الحميدي (528 وسنده صحيح)