الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
141. باب مَا يُجْزِئُ الأُمِّيَّ وَالأَعْجَمِيَّ مِنَ الْقِرَاءَةِ
141. باب: ان پڑھ (اُمّی) اور عجمی کے لیے کتنی قرآت کافی ہے؟
حدیث نمبر: 830
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَفِينَا الْأَعْرَابِيُّ وَالْأَعْجَمِيُّ، فَقَالَ:" اقْرَءُوا فَكُلٌّ حَسَنٌ، وَسَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يُقِيمُونَهُ كَمَا يُقَامُ الْقِدْحُ يَتَعَجَّلُونَهُ وَلَا يَتَأَجَّلُونَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم لوگ قرآن پڑھ رہے تھے اور ہم میں بدوی بھی تھے اور عجمی بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑھو سب ٹھیک ہے عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو اسے (یعنی قرآن کے الفاظ و کلمات کو) اسی طرح درست کریں گے جیسے تیر درست کیا جاتا ہے (یعنی تجوید و قرآت میں مبالغہ کریں گے) اور اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کے بجائے جلدی جلدی پڑھیں گے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 830]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3013)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/357، 397) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ مشكوة المصابيح (2206)

حدیث نمبر: 831
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، وَابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ وَفَاءِ بْنِ شُرَيْحٍ الصَّدَفِيِّ،عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَنَحْنُ نَقْتَرِئُ، فَقَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ، كِتَابُ اللَّهِ وَاحِدٌ، وَفِيكُمُ الْأَحْمَرُ وَفِيكُمُ الْأَبْيَضُ وَفِيكُمُ الْأَسْوَدُ، اقْرَءُوهُ قَبْلَ أَنْ يَقْرَأَهُ أَقْوَامٌ يُقِيمُونَهُ كَمَا يُقَوَّمُ السَّهْمُ يُتَعَجَّلُ أَجْرُهُ وَلَا يُتَأَجَّلُهُ".
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم قرآن کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمداللہ! اللہ کی کتاب ایک ہے اور تم لوگوں میں اس کی تلاوت کرنے والے سرخ، سفید، سیاہ سب طرح کے لوگ ہیں، تم اسے پڑھو قبل اس کے کہ ایسے لوگ آ کر اسے پڑھیں، جو اسے اسی طرح درست کریں گے، جس طرح تیر کو درست کیا جاتا ہے، اس کا بدلہ (ثواب) دنیا ہی میں لے لیا جائے گا اور اسے آخرت کے لیے نہیں رکھا جائے گا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 831]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود: 5(338)، (تحفة الأشراف: 4807) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ وفاء بن شريح مجهول الحال لم يوثقه غير ابن حبان¤ والحديث السابق (الأصل : 830) يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 43

حدیث نمبر: 832
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالَانِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا، فَعَلِّمْنِي مَا يُجْزِئُنِي مِنْهُ؟ قَالَ:قُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَمَا لِي؟ قَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي، وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِي، وَاهْدِنِي، فَلَمَّا قَامَ، قَالَ هَكَذَا بِيَدِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ مَلَأَ يَدَهُ مِنَ الْخَيْرِ".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں قرآن میں سے کچھ نہیں پڑھ سکتا، اس لیے آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئیے جو اس کے بدلے مجھے کفایت کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو، اس نے پھر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو اللہ کی تعریف ہوئی، میرے لیے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہا کرو «اللهم ارحمني وارزقني وعافني واهدني» اے پروردگار! مجھ پر رحم فرما، مجھے روزی دے، مجھے عافیت دے اور مجھ کو ہدایت دے، جب وہ شخص کھڑا ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا ۱؎ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے تو اپنا ہاتھ خیر سے بھر لیا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 832]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/ افتتاح 32 (925) (تحفة الأشراف: 5150)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/353، 356، 382) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی دونوں ہاتھوں کو سمیٹا جس سے اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس نے ان باتوں کو محفوظ کر لیا ہے جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا ہے جس طرح کوئی عمدہ چیز سمیٹ کر آدمی اسے محفوظ کرتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ مشكوة المصابيح (858)¤ أخرجه الحميدي (717 وسنده حسن) إبراھيم السكسكي وثقه الجمھور

حدیث نمبر: 833
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ يَعْنِي الْفَزَارِيَّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي التَّطَوُّعَ نَدْعُو قِيَامًا وَقُعُودًا، وَنُسَبِّحُ رُكُوعًا وَسُجُودًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم نفل نماز پڑھتے تو قیام و قعود کی حالت میں دعا کرتے اور رکوع و سجود کی حالت میں تسبیح پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 833]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2220) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (حسن بصری نے جابر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ الحسن البصري مدلس و عنعن ولم يسمع من سيدنا جابر رضي اللّٰه عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 43

حدیث نمبر: 834
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، مِثْلَهُ لَمْ يَذْكُرِ التَّطَوُّعَ. قَالَ: كَانَ الْحَسَنُ" يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ إِمَامًا أَوْ خَلْفَ إِمَامٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَيُسَبِّحُ وَيُكَبِّرُ وَيُهَلِّلُ قَدْرَ ق، وَالذَّارِيَاتِ".
حمید سے اسی کے مثل مروی ہے، اس میں راوی نے نفل کا ذکر نہیں کیا ہے، اس میں ہے کہ حسن بصری ظہر اور عصر میں خواہ وہ امام ہوں یا امام کے پیچھے ہوں، سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے اور سورۃ ق اور سورۃ ذاریات پڑھنے کے بقدر (وقت میں) تسبیح و تکبیر اور تہلیل کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 834]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2220، 18513) (ضعیف مقطوع ولکن فعلہ صحیح وثابت)» ‏‏‏‏ (جابر رضی اللہ عنہ کا اثر ضعیف ہے، اور حسن بصری کا فعل صحیح ہے، قرأت پر قادر آدمی کے لئے قرأت فرض ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ انظر الحديث السابق (833) وثبت عن الحسن البصري القول بالفاتحة خلف الإمام،أخرجه ابن أبي شيبة (374/1)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 43