الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
172. باب رَدِّ السَّلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
172. باب: نماز میں سلام کا جواب دینا۔
حدیث نمبر: 923
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ" فَيَرُدُّ عَلَيْنَا"، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، وَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے اس حال میں کہ آپ نماز میں ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی (بادشاہ حبشہ) کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا اور فرمایا: نماز (خود) ایک شغل ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 923]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العمل في الصلاة 3 (1201)، 15 (1216)، مناقب الأنصار 37 (3875)، صحیح مسلم/المساجد 7 (538)، ن الکبری / السھو 99 (540)، (تحفة الأشراف: 9418)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 59 (1019)، مسند احمد (1/ 176، 177، 409، 415، 435، 462) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1199) صحيح مسلم (538)

حدیث نمبر: 924
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ، وَنَأْمُرُ بِحَاجَتِنَا، فَقَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، وَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ قَدْ أَحْدَثَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ". فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (پہلے) ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور کام کاج کی باتیں کر لیتے تھے، تو (ایک بار) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا تو مجھے پرانی اور نئی باتوں کی فکر دامن گیر ہو گئی ۱؎، جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، نیا حکم نازل کرتا ہے، اب اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ نماز میں باتیں نہ کرو، پھر آپ نے میرے سلام کا جواب دیا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 924]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏ن / الکبری/ السہو 113 (559)، (تحفة الأشراف: 9272)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/377)، 435، 463) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی میں سوچنے لگا کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہوئی ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے ہوں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (989)¤ أخرجه النسائي (1222 وسنده حسن)

حدیث نمبر: 925
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ صُهَيْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ" فَرَدَّ إِشَارَةً"، قَالَ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ: إِشَارَةً بِأُصْبُعِهِ. وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ قُتَيْبَةَ.
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ نابل کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے «إشارة بأصبعه» کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا، یہ قتیبہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 925]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 159 (367)، سنن النسائی/السھو 6 (1187)، (تحفة الأشراف: 4966)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 59 (1019)، مسند احمد (4/332)، سنن الدارمی/الصلاة 94 (1401) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ صححه ابن خزيمة (888 وسنده صحيح)

حدیث نمبر: 926
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَرْسَلَنِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَنِى الْمُصْطَلَقِ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ" يُصَلِّي عَلَى بَعِيرِهِ، فَكَلَّمْتُهُ، فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ، فَقَالَ لِي بِيَدِهِ هَكَذَا، وَأَنَا أَسْمَعُهُ يَقْرَأُ وَيُومِئُ بِرَأْسِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: مَا فَعَلْتَ فِي الَّذِي أَرْسَلْتُكَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بنی مصطلق کے پاس بھیجا، میں (وہاں سے) لوٹ کر آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ سے بات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے اس طرح سے اشارہ کیا، میں نے پھر آپ سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا یعنی خاموش رہنے کا حکم دیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآت کرتے سن رہا تھا اور آپ اپنے سر سے اشارہ فرما رہے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: میں نے تم کو جس کام کے لیے بھیجا تھا اس سلسلے میں تم نے کیا کیا؟، میں نے تم سے بات اس لیے نہیں کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 926]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 7 (547)، (تحفة الأشراف: 2718)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/السھو 6 (1190)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 59 (1018)، مسند احمد (3/312، 334، 338، 380، 296)، ویأتي برقم: (1227) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (540)

حدیث نمبر: 927
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْخُرَاسَانِيُّ الدَّامِغَانِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُبَاءَ يُصَلِّي فِيهِ، قَالَ: فَجَاءَتْهُ الْأَنْصَارُ، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، قَالَ: فَقُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي؟ قَالَ:" يَقُولُ هَكَذَا: وَبَسَطَ كَفَّهُ، وَبَسَطَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ كَفَّهُ، وَجَعَلَ بَطْنَهُ أَسْفَلَ، وَجَعَلَ ظَهْرَهُ إِلَى فَوْقٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے قباء گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت نماز میں آپ کو سلام کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا؟ بلال رضی اللہ عنہ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کر رہے تھے، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے، جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اس کو نیچے اور اس کی پشت کو اوپر کر کے بتایا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 927]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/ الصلاة 155 (368)، (تحفة الأشراف: 2038، 8512)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/12) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ أخرجه الترمذي (368 وسنده حسن) وصححه بن الجارود (215 وسنده حسن) وانظر الحديث السابق (925)

حدیث نمبر: 928
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا غِرَارَ فِي صَلَاةٍ وَلَا تَسْلِيمٍ". قَالَ أَحْمَدُ: يَعْنِي فِيمَا أَرَى أَنْ لَا تُسَلِّمَ وَلَا يُسَلَّمَ عَلَيْكَ، وَيُغَرِّرُ الرَّجُلُ بِصَلَاتِهِ فَيَنْصَرِفُ وَهُوَ فِيهَا شَاكٌّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں نقصان اور کمی نہیں ہے اور نہ سلام میں ہے ۱؎، احمد کہتے ہیں: جہاں تک میں سمجھتا ہوں مطلب یہ ہے کہ (نماز میں) نہ تو تم کسی کو سلام کرو اور نہ تمہیں کوئی سلام کرے اور نماز میں نقصان یہ ہے کہ آدمی نماز سے اس حال میں پلٹے کہ وہ اس میں شک کرنے والا ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 928]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13401)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/461) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سلام میں نقص نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ تم سلام کا مکمل جواب دو اس میں کوئی کمی نہ کرو یعنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ہی پر اکتفا نہ کرو بلکہ وبرکاتہ بھی کہو، ایسے ہی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ہی نہ کہو بلکہ ورحمۃ اللہ بھی کہو، اور نماز میں نقص کا ایک مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدے پورے طور سے ادا نہ کئے جائیں، دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز میں اگر شک ہو جائے کہ تین رکعت ہوئی یا چار تو تین کو جو یقین ہے چھوڑ کر چار کو اختیار نہ کیا جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ الثوري عنعن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 46

حدیث نمبر: 929
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُرَاهُ رَفَعَهُ، قَالَ:" لَا غِرَارَ فِي تَسْلِيمٍ وَلَا صَلَاةٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ ابْنُ فُضَيْلٍ عَلَى لَفْظِ ابْنِ مَهْدِيٍّ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ سلام میں نقص ہے اور نہ نماز میں۔ معاویہ بن ہشام کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ سفیان نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ابن فضیل نے ابن مہدی کی طرح «لا غرار في تسليم ولا صلاة‏‏» کے لفظ کے ساتھ روایت کی ہے اور اس کو مرفوع نہیں کہا ہے (بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول بتایا ہے)۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 929]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13401)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/461) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ انظر الحديث السابق (928)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 46