الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
أبواب تفريع استفتاح الصلاة
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
189. باب كَرَاهِيَةِ الاِعْتِمَادِ عَلَى الْيَدِ فِي الصَّلاَةِ
189. باب: نماز میں ہاتھ کا سہارا لینے کی کراہت۔
حدیث نمبر: 992
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَبُّوَيْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْغَزَّالُ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: أَنْ يَجْلِسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِهِ". وَقَالَ ابْنُ شَبُّوَيْهِ:" نَهَى أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدِهِ فِي الصَّلَاةِ". وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ:" نَهَى أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِهِ". وَذَكَرَهُ فِي بَابِ الرَّفْعِ مِنَ السُّجُودِ، وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ:" نَهَى أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدَيْهِ إِذَا نَهَضَ فِي الصَّلَاةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے: آدمی کو نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے، اور ابن شبویہ کی روایت میں ہے: آدمی کو نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگانے سے منع کیا ہے، اور ابن رافع کی روایت میں ہے: آدمی کو اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، اور انہوں نے اسے «باب الرفع من السجود» میں ذکر کیا ہے، اور ابن عبدالملک کی روایت میں ہے کہ آدمی کو نماز میں اٹھتے وقت اپنے دونوں ہاتھ پر ٹیک لگانے سے منع کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 992]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7504)، وقد أخرجہ: حم (2/147) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: عبدالرزاق کے تلامذہ نے اسے چار وجوہ پر روایت کیا ہے جس میں دوسری اور تیسری وجہ پہلی وجہ کے مخالف نہیں البتہ چوتھی پہلی کے صریح مخالف ہے اور ترجیح پہلی وجہ کو حاصل ہے کیونکہ اس کے روایت کرنے والے احمد بن حنبل ہیں جو حفظ وضبط اور اتقان میں مشہور ائمہ میں سے ہیں اس کے برخلاف ابن عبدالملک کو اگرچہ نسائی وغیرہ نے ثقہ کہا ہے لیکن مسلم نے انہیں ثقہ کثیر الخطا کہا ہے ایسی صورت میں ثقہ کی مخالفت سے ان کی روایت منکر ہو گی اسی وجہ سے تخریج میں ابن عبدالملک کی روایت کو منکر کہا گیا ہے، رہی وہ حدیث جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگائے بغیر تیر کی مانند اٹھتے تھے تو وہ من گھڑت اور موضوع ہے، سجدے سے دونوں ہاتھ ٹیک کر اٹھنے کے مسنون ہونے کی دلیل صحیح بخاری میں مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں ہے: «وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية واعتمد على الأرض ثم قام» یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسرے سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو بیٹھتے اور زمین پر ٹیک لگاتے پھر کھڑے ہوتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح إلا بلفظ ابن عبدالملك فإنه منكر

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عبدالرزاق بن همام مدلس (الفتح المبين : 2/58 وھو في الراجح من المرتبة الثالثة) عنعن و محمد بن عبدالملك الغزال لم يثبت بأنه سمع منه قبل اختلاطه و حديث أحمد بن حنبل و ابن شبويه و محمد بن رافع عن عبدالرزاق صحيح لتصريح سماعه و تحديثه قبل اختلاطه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 47

حدیث نمبر: 993
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، سَأَلْتُ نَافِعًا عَنِ الرَّجُلِ يُصَلِّي وَهُوَ مُشَبِّكٌ يَدَيْهِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: تِلْكَ صَلَاةُ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ.
اسماعیل بن امیہ کہتے ہیں میں نے نافع سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو نماز پڑھ رہا ہو اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کئے ہوئے ہو، تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ یہ غضب کی شکار «مغضوب عليهم» قوم یہود کی نماز ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 993]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7504) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 994
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ وَهَذَا لَفْظُهُ جَمِيعًا، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَتَّكِئُ عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى وَهُوَ قَاعِدٌ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ هَارُونُ بْنُ زَيْدٍ: سَاقِطًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ، ثُمَّ اتَّفَقَا، فَقَالَ لَهُ:" لَا تَجْلِسْ هَكَذَا، فَإِنَّ هَكَذَا يَجْلِسُ الَّذِينَ يُعَذَّبُونَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو اپنے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے نماز میں بیٹھے ہوئے دیکھا (ہارون بن زید نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ بائیں پہلو پر پڑا ہوا دیکھا پھر (آگے) دونوں (الفاظ میں) متفق ہیں تو انہوں نے اس سے کہا: اس طرح نہ بیٹھو کیونکہ اس طرح وہ لوگ بیٹھتے ہیں جو عذاب دیئے جائیں گے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 994]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8513)، وقد أخرجہ: حم (2/116) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ رواه البيھقي (2/136 موقوفًا وسنده حسن) ورواه أحمد (2/116 مرفوعًا وسنده حسن)