الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
20. باب فِي الْوَلِيِّ
20. باب: ولی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2083
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا، فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین بار فرمایا، (پھر فرمایا) اگر اس مرد نے ایسی عورت سے جماع کر لیا تو اس جماع کے عوض عورت کے لیے اس کا مہر ہے اور اگر ولی اختلاف کریں ۱؎ تو بادشاہ اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2083]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/النکاح 14 (1102)، سنن ابن ماجہ/النکاح 15 (1879)، (تحفة الأشراف: 16462)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/ النکاح (5394)، مسند احمد (6/66، 166، 260)، سنن الدارمی/النکاح 11 (2230) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مثلاً ایک عورت کے دو بھائی ہوں ایک کسی کے ساتھ اس کا نکاح کرنا چاہے دوسرا کسی دوسرے کے ساتھ اور عورت نابالغ ہو اور یہ اختلاف نکاح ہونے میں آڑے آئے اور نکاح نہ ہونے دے تو ایسی صورت میں یہ فرض کر کے کہ گویا اس کا کوئی ولی ہی نہیں ہے سلطان اس کا ولی ہو گا ورنہ ولی کی موجودگی میں سلطان کو ولایت کا حق حاصل نہیں۔
۲؎: اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے، خواہ عورت بالغ ہو یا نابالغ، یہی ائمہ حدیث کا مذہب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ مشكوة المصابيح (3131)¤ أخرجه الترمذي (1102 وسنده صحيح) ابن جريج سمعه من سليمان بن موسٰي والزھري سمعه من عروة وأعل بما لايقدح

حدیث نمبر: 2084
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ جَعْفَرٍ يَعْنِي ابْنَ رَبِيعَةَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: جَعْفَرٌ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ الزُّهْرِيِّ، كَتَبَ إِلَيْهِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2084]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 16462) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ انظر الحديث السابق (2083)

حدیث نمبر: 2085
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ، عَنْ يُونُسَ، وَإِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهُوَ يُونُسُ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ وَ إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ.
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2085]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/النکاح 14 (1101)، سنن ابن ماجہ/النکاح 15 (1881)، (تحفة الأشراف: 9115)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/394، 413، 418)، سنن الدارمی/النکاح 11 (2229) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ مشكوة المصابيح (3130)¤ انظر الحديث السابق (2083)

حدیث نمبر: 2086
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ ابْنِ جَحْشٍ فَهَلَكَ عَنْهَا وَكَانَ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ، فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عِنْدَهُمْ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ابن حجش کے نکاح میں تھیں، ان کا انتقال ہو گیا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سر زمین حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی تو نجاشی (شاہ حبش) نے ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، اور وہ انہیں لوگوں کے پاس (ملک حبش ہی میں) تھیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 2086]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/النکاح 66 (3352)، (تحفة الأشراف: 15854)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/427) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ نسائي (3352) ويأتي (2107)¤ الزھري مدلس وعنعن و ھذا مشهور عند أھل السير¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 79