الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
105. باب النَّهْىِ عَنْ قَتْلِ، مَنِ اعْتَصَمَ بِالسُّجُودِ
105. باب: جو سجدہ کر کے پناہ حاصل کرے اس کو قتل کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 2645
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ فَاعْتَصَمَ نَاسٌ مِنْهُمْ بِالسُّجُودِ فَأَسْرَعَ فِيهِمُ الْقَتْلَ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ:" أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ؟ قَالَ: لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ هُشَيْمٌ، وَمَعْمَرٌ، وَخَالِدٌ الْوَاسِطِيُّ، وجماعة لم يذكروا جريرا.
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک سریہ بھیجا تو ان کے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے بچنا چاہا پھر بھی لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کے لیے نصف دیت ۱؎ کا حکم دیا اور فرمایا: میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی (یعنی اسلام اور کفر کی) آگ ایک ساتھ نہیں رہ سکتی ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشیم، معمر، خالد واسطی اور ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے جریر کا ذکر نہیں کیا ہے ۳؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2645]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/السیر 42 (1605)، سنن النسائی/القسامة 21 (4784) (عن قیس مرسلا)، (تحفة الأشراف: 3227) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: نصف دیت کا حکم دیا اور باقی نصف کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہو گئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں نصف دیت ساقط ہو گئی۔
۲؎: اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں: ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علیحدہ کر دیا ہے لہٰذا مسلمانوں کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل وصورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔
۳؎: یعنی: ان لوگوں نے اس حدیث کو «عن قیس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم » مرسلاً روایت کیا ہے، بخاری نے بھی مرسل ہی کو صحیح قرار دیا ہے مگر موصول کی متابعات صحیحہ موجود ہیں جیسا کہ البانی نے (ارواء الغلیل، حدیث نمبر: ۱۲۰۷ میں) ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة العقل

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ ضعيف¤ ترمذي (1604)¤ أبو معاوية الضرير عنعن¤ وللحديث طرق ضعيفة كلھا¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 96