الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
27. باب مَا جَاءَ فِي إِسْبَالِ الإِزَارِ
27. باب: تہ بند (لنگی) کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4084
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي غِفَارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِي وَأَبُو تَمِيمَةَ اسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدُّ، عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَجُلًا يَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْيِهِ لَا يَقُولُ شَيْئًا إِلَّا صَدَرُوا عَنْهُ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: لَا تَقُلْ عَلَيْكَ السَّلَامُ فَإِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ، قُلِ السَّلَامُ عَلَيْكَ، قَالَ: قُلْتُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَنَا رَسُولُ اللَّهِ الَّذِي إِذَا أَصَابَكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ، وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ أَنْبَتَهَا لَكَ، وَإِذَا كُنْتَ بِأَرْضٍ قَفْرَاءَ أَوْ فَلَاةٍ فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ رَدَّهَا عَلَيْكَ، قَالَ: قُلْتُ اعْهَدْ إِلَيَّ، قَالَ: لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا، قَالَ: فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلَا عَبْدًا وَلَا بَعِيرًا وَلَا شَاةً، قَالَ: وَلَا تَحْقِرَنَّ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَيْهِ وَجْهُكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ، وَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَيَّرَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ فَلَا تُعَيِّرْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَيْهِ".
ابوجری جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں جب بھی وہ کوئی بات کہتا ہے لوگ اسی کو تسلیم کرتے ہیں، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میں نے دو مرتبہ کہا: «عليك السلام يا رسول الله» آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عليك السلام» نہ کہو، یہ مردوں کا سلام ہے اس کے بجائے «السلام عليك» کہو۔ میں نے کہا: (کیا) آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس اللہ کا بھیجا رسول ہوں، جس کو تمہیں کوئی ضرر لاحق ہو تو پکارو وہ تم سے اس ضرر کو دور فرما دے گا، جب تم پر کوئی قحط سالی آئے اور تم اسے پکارو تو وہ تمہارے لیے غلہ اگا دے گا، اور جب تم کسی چٹیل زمین میں ہو یا میدان پھر تمہاری اونٹنی گم ہو جائے تو اگر تم اس اللہ سے دعا کرو تو وہ اسے لے آئے گا، میں نے کہا: مجھے نصیحت کیجئے آپ نے فرمایا: کسی کو بھی گالی نہ دو۔‏‏‏‏ اس کے بعد سے میں نے کسی کو گالی نہیں دی، نہ آزاد کو، نہ غلام کو، نہ اونٹ کو، نہ بکری کو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی بھلائی کے کام کو معمولی نہ سمجھو، اور اگر تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے بات کرو گے تو یہ بھی بھلے کام میں داخل ہے، اور اپنا تہ بند نصف «ساق» (پنڈلی) تک اونچی رکھو، اور اگر اتنا نہ ہو سکے تو ٹخنوں تک رکھو، اور تہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ غرور و تکبر کی بات ہے، اور اللہ غرور پسند نہیں کرتا، اور اگر تمہیں کوئی گالی دے اور تمہارے اس عیب سے تمہیں عار دلائے جسے وہ جانتا ہے تو تم اسے اس کے اس عیب سے عار نہ دلاؤ جسے تم جانتے ہو کیونکہ اس کا وبال اسی پر ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4084]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2124)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الاستئذان 28 (2722)، سنن النسائی/ الکبری (9691)، مسند احمد (3/482، 5/63) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ مشكوة المصابيح (1918)¤ أخرجه الترمذي (2722 وسنده صحيح)

حدیث نمبر: 4085
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ أَحَدَ جَانِبَيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي إِنِّي لَأَتَعَاهَدُ ذَلِكَ مِنْهُ، قَالَ: لَسْتَ مِمَّنْ يَفْعَلُهُ خُيَلَاءَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی غرور اور تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا تو اللہ اسے قیامت کے دن نہیں دیکھے گا یہ سنا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے تہبند کا ایک کنارہ لٹکتا رہتا ہے جب کہ میں اس کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم ان میں سے نہیں ہو جو غرور سے یہ کام کیا کرتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4085]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/فضائل الصحابة 5 (3665)، اللباس 1 (5783)، 2 (5784)، 5 (5791)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی 50 (5337)، (تحفة الأشراف: 7026)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/اللباس 9 (2085)، سنن الترمذی/اللباس 8 (1730)، 9 (1731)، سنن ابن ماجہ/اللباس 6 (3571)، 9 (3576)، موطا امام مالک/اللباس 5 (9)، مسند احمد (2/5، 10، 32، 42، 44، 46، 55، 56، 60، 65، 67، 69، 74، 76، 81) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5784)¤ مشكوة المصابيح (4332)

حدیث نمبر: 4086
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ؟، ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنا تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جا وضو کر کے آؤ وہ گیا اور وضو کر کے دوبارہ آیا، پھر آپ نے فرمایا: جاؤ اور وضو کر کے آؤ تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو وضو کا حکم دیتے ہیں پھر چپ ہو رہتے ہیں آخر کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا، اور اللہ ایسے شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا جو اپنا تہ بند ٹخنے کے نیچے لٹکائے ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4086]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم (638)، (تحفة الأشراف: 14241) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ انظر الحديث السابق (638)

حدیث نمبر: 4087
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ، قُلْتُ: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا؟ فَأَعَادَهَا ثَلَاثًا، قُلْتُ: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ خَابُوا وَخَسِرُوا؟ فَقَالَ: الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ أَوِ الْفَاجِرِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ انہیں رحمت کی نظر سے دیکھے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا میں نے پوچھا: وہ کون لوگ ہیں؟ اللہ کے رسول! جو نامراد ہوئے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، پھر آپ نے یہی بات تین بار دہرائی، میں نے عرض کیا: وہ کون لوگ ہیں؟ اللہ کے رسول! جو نامراد ہوئے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹخنہ سے نیچے تہ بند لٹکانے والا، اور احسان جتانے والا، اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4087]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 46 (106)، سنن الترمذی/البیوع 5 (1211)، سنن النسائی/الزکاة 69 (2564)، البیوع 5 (4463)، الزینة من المجتبی 50 (5335)، سنن ابن ماجہ/التجارات 30 (2208)، (تحفة الأشراف: 11909)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/148، 158، 162، 168، 178)، دی/ البیوع 63 (2647) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (106)

حدیث نمبر: 4088
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ، قَالَ: الْمَنَّانُ الَّذِي لَا يُعْطِي شَيْئًا إِلَّا مَنَّهُ.
اس سند سے بھی ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی ہے اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے راوی کہتے ہیں: «منان» وہ ہے جو بغیر احسان جتائے کچھ نہ دے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4088]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11909) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (106)

حدیث نمبر: 4089
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ يَعْنِي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ بِشْرٍ التَّغْلِبِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي وَكَانَ جَلِيسًا لِأَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: كَانَ بِدِمَشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ: ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ وَكَانَ رَجُلًا مُتَوَحِّدًا قَلَّمَا يُجَالِسُ النَّاسَ إِنَّمَا هُوَ صَلَاةٌ فَإِذَا فَرَغَ فَإِنَّمَا هُوَ تَسْبِيحٌ وَتَكْبِيرٌ حَتَّى يَأْتِيَ أَهْلَهُ، فَمَرَّ بِنَا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً فَقَدِمَتْ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَجَلَسَ فِي الْمَجْلِسِ الَّذِي يَجْلِسُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِرَجُلٍ إِلَى جَنْبِهِ: لَوْ رَأَيْتَنَا حِينَ الْتَقَيْنَا نَحْنُ وَالْعَدُوُّ فَحَمَلَ فُلَانٌ فَطَعَنَ، فَقَالَ: خُذْهَا مِنِّي وَأَنَا الْغُلَامُ الْغِفَارِيُّ كَيْفَ تَرَى فِي قَوْلِهِ؟ قَالَ مَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ بَطَلَ أَجْرُهُ، فَسَمِعَ بِذَلِكَ آخَرُ، فَقَالَ: مَا أَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا فَتَنَازَعَا حَتَّى سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ لَا بَأْسَ أَنْ يُؤْجَرَ وَيُحْمَدَ، فَرَأَيْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ سُرَّ بِذَلِكَ وَجَعَلَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَيْهِ وَيَقُولُ: أَنْتَ سَمِعْتَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَمَا زَالَ يُعِيدُ عَلَيْهِ حَتَّى إِنِّي لَأَقُولُ لَيَبْرُكَنَّ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، قَالَ: فَمَرَّ بِنَا يَوْمًا آخَرَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُنْفِقُ عَلَى الْخَيْلِ كَالْبَاسِطِ يَدَهُ بِالصَّدَقَةِ لَا يَقْبِضُهَا ثُمَّ مَرَّ بِنَا يَوْمًا آخَرَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَيْمٌ الْأَسَدِيُّ لَوْلَا طُولُ جُمَّتِهِ وَإِسْبَالُ إِزَارِهِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ خُرَيْمًا فَعَجِلَ فَأَخَذَ شَفْرَةً فَقَطَعَ بِهَا جُمَّتَهُ إِلَى أُذُنَيْهِ وَرَفَعَ إِزَارَهُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ ثُمَّ مَرَّ بِنَا يَوْمًا آخَرَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّكُمْ قَادِمُونَ عَلَى إِخْوَانِكُمْ فَأَصْلِحُوا رِحَالَكُمْ وَأَصْلِحُوا لِبَاسَكُمْ حَتَّى تَكُونُوا كَأَنَّكُمْ شَامَةٌ فِي النَّاسِ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَتَّى تَكُونُوا كَالشَّامَةِ فِي النَّاسِ.
قیس بن بشر تغلبی کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور وہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھی تھے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص دمشق میں تھے جنہیں ابن حنظلیہ کہا جاتا تھا، وہ خلوت پسند آدمی تھے، لوگوں میں کم بیٹھتے تھے، اکثر اوقات نماز ہی میں رہتے تھے جب نماز سے فارغ ہوتے تو جب تک گھر نہ چلے جاتے تسبیح و تکبیر ہی میں لگے رہتے۔ ایک روز وہ ہمارے پاس سے گزرے اور ہم ابو الدرداء کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو ان سے ابوالدرداء نے کہا: کوئی ایسی بات کہئیے جس سے ہمیں فائدہ ہو، اور آپ کو اس سے کوئی نقصان نہ ہو تو وہ کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ جہاد کے لیے بھیجا، جب وہ سریہ لوٹ کر واپس آیا تو اس میں کا ایک شخص آیا اور جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھا کرتے تھے وہاں آ کر بیٹھ گیا، پھر وہ اپنے بغل کے ایک شخص سے کہنے لگا: کاش تم نے ہمیں دیکھا ہوتا جب ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی تھی، فلاں نے نیزہ اٹھا کر دشمن پر وار کیا اور وار کرتے ہوئے یوں گویا ہوا لے میرا یہ وار اور میں قبیلہ غفار کا فرزند ہوں بتاؤ تم اس کے اس کہنے کو کیسا سمجھتے ہو؟ وہ بولا: میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کا ثواب جاتا رہا، ایک اور شخص نے اسے سنا تو بولا: اس میں کوئی مضائقہ نہیں، چنانچہ وہ دونوں جھگڑنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: سبحان اللہ! کیا قباحت ہے اگر اس کو ثواب بھی ملے اور لوگ اس کی تعریف بھی کریں۔ بشر تغلبی کہتے ہیں: میں نے ابوالدرداء کو دیکھا وہ اسے سن کر خوش ہوئے اور اپنا سر ان کی طرف اٹھا کر پوچھنے لگے کہ آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر وہ باربار یہی سوال دہرانے لگے یہاں تک کہ میں سمجھا کہ وہ ان کے گھٹنوں پر بیٹھ جائیں گے۔ پھر ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرے تو ان سے ابو الدرداء نے کہا: مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس سے ہمیں فائدہ ہو اور آپ کو اس سے کوئی نقصان نہ ہو، تو انہوں نے کہا: ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جہاد کی نیت سے) گھوڑوں کی پرورش پر صرف کرنے والا اس شخص کے مانند ہے جو اپنا ہاتھ پھیلا کے صدقہ کر رہا ہو کبھی انہیں سمیٹتا نہ ہو۔ پھر ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرے پھر ابوالدرداء نے ان سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو ہمیں فائدہ پہنچائے، تو انہوں نے کہا ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریم اسدی کیا ہی اچھے آدمی ہیں اگر ان کے سر کے بال بڑھے ہوئے نہ ہوتے، اور تہ بند ٹخنے سے نیچے نہ لٹکتا یہ بات خریم کو معلوم ہوئی تو انہوں نے چھری لے کر اپنے بالوں کو کاٹ کر کانوں کے برابر کر لیا، اور تہ بند کو نصف «ساق» (پنڈلی) تک اونچا کر لیا۔ پھر دوبارہ ایک اور دن ہمارے پاس سے ان کا گزر ہوا تو ابوالدرداء نے ان سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو ہمیں فائدہ پہنچائے اور جس سے آپ کو کوئی نقصان نہ ہو، تو وہ بولے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اب تم اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہو (یعنی سفر سے واپس گھر پہنچنے والے ہو) تو اپنی سواریاں اور اپنے لباس درست کر لو تاکہ تم اس طرح ہو جاؤ گویا تم تل ہو لوگوں میں یعنی ہر شخص تمہیں دیکھ کر پہچان لے، کیونکہ اللہ فحش گوئی کو، اور قدرت کے باوجود خستہ حالت (پھٹے پرانے کپڑے) میں رہنے کو پسند نہیں کرتا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح ابونعیم نے ہشام سے روایت کیا ہے اس میں «حتى تكونوا كأنكم شامة في الناس» کے بجائے «حتى تكونوا كالشامة في الناس» ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 4089]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4654)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/179، 180) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (4461)