الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
أبواب السلام
ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
156. باب مَا جَاءَ فِي الْقِيَامِ
156. باب: استقبال کے لیے کھڑے ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5215
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ," أَنَّ أَهْلَ قُرَيْظَةَ لَمَّا نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدٍ , أَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ أَقْمَرَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ أَوْ إِلَى خَيْرِكُمْ , فَجَاءَ حَتَّى قَعَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قریظہ کے لوگ سعد کے حکم (فیصلہ) پر اترے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، وہ ایک سفید گدھے پر سوار ہو کر آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے سردار یا اپنے بہتر شخص کی طرف بڑھو پھر وہ آئے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5215]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجھاد 168 (3043)، المناقب 12 (3804)، المغازي 31 (4121)، الاستئذان 25 (6262)، صحیح مسلم/الجھاد 22 (1768)، (تحفة الأشراف: 3960)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/142) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6262) صحيح مسلم (1768)

حدیث نمبر: 5216
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ شُعْبَةَ , بِهَذَا الْحَدِيثِ , قَالَ: فَلَمَّا كَانَ قَرِيبًا مِنَ الْمَسْجِدِ , قال لِلْأَنْصَارِ: قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ.
اس سند سے بھی شعبہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: جب وہ مسجد سے قریب ہوئے تو آپ نے انصار سے فرمایا: اپنے سردار کی طرف بڑھو ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5216]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3960) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سے قیام تعظیم کی بابت استدلال درست نہیں کیونکہ ترمذی میں انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے پھر بھی لوگ آپ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ آپ کو یہ چیز پسند نہیں۔ دوسری جانب مسند احمد میں «قوموا إلى سيدكم» کے بعد «فأنزلوه»  کا اضافہ ہے جو صحیح ہے اور اس امر میں صریح ہے کہ لوگوں کو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے لئے کھڑے ہونے کا جو حکم ملا یہ کھڑا ہونا دراصل سعد رضی اللہ عنہ کو اس زخم کی وجہ سے بڑھ کر اتارنے کے لئے تھا جو تیر کے لگنے سے ہو گیا تھا، نہ کہ یہ قیام تعظیم تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4121) صحيح مسلم (1768)

حدیث نمبر: 5217
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ , وَابْنُ بَشَّارٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ , عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ , عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ , عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , أَنَّهَا قَالَتْ:" مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا , وَقَالَ الْحَسَنُ: حَدِيثًا وَكَلَامًا , وَلَمْ يَذْكُرْ الْحَسَنُ السَّمْتَ وَالْهَدْيَ وَالدَّلَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , مِنْ فَاطِمَةَ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهَا كَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ , قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا , وَقَبَّلَهَا , وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ , وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا , قَامَتْ إِلَيْهِ , فَأَخَذَتْ بِيَدِهِ , فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے طور طریق اور چال ڈھال میں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا (حسن کی روایت میں بات چیت میں کے الفاظ ہیں، اور حسن نے «سمتا وهديا ودلا» (طور طریق اور چال ڈھال) کا ذکر نہیں کیا ہے) وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ کھڑے ہو کر ان کی طرف لپکتے اور ان کا ہاتھ پکڑ لیتے، ان کو بوسہ دیتے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے پاس لپک کر پہنچتیں، آپ کا ہاتھ تھام لیتیں، آپ کو بوسہ دیتیں، اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5217]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/المناقب 61 (3872)، (تحفة الأشراف: 17883، 18040) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (4689)