الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
69. بَابُ: الْوُضُوءِ مِنَ الْقُبْلَةِ
69. باب: بوسہ لے کر وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 502
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِهِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ"، قُلْتُ: مَا هِيَ إِلَّا أَنْتِ، فَضَحِكَتْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیا، پھر نماز کے لیے نکلے اور وضو نہیں کیا، (عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ) میں نے (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے) کہا: وہ آپ ہی رہی ہوں گی! تو وہ ہنس پڑیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 502]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطہارة 69 (179)، سنن الترمذی/الطہارة 63 (86)، (تحفة الأشراف: 17371، ومصباح الزجاجة: 209)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/207) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سنن أبي داود (179) ترمذي (86)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 396

حدیث نمبر: 503
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ زَيْنَبَ السَّهْمِيَّةِ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُقَبِّلُ وَيُصَلِّي وَلَا يَتَوَضَّأُ، وَرُبَّمَا فَعَلَهُ بِي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے پھر بوسہ لیتے، اور بغیر وضو کئے نماز پڑھتے، اور بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ بھی ایسا کیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 503]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17842، ومصباح الزجاجة: 209)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/92) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حجاج مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، اور زینب کے حالات معلوم نہیں، ان کے بارے میں دارقطنی کا قول ہے: «لا تقوم بہا حجة» قابل اعتماد نہیں ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ حجاج بن أرطاة عنعن مع ضعفه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 396