الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
83. بَابُ: الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الَّذِي يُجَامِعُ فِيهِ
83. باب: جماع والے کپڑوں میں نماز پڑھنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 540
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُدَيْجٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ ، أَنَّهُ سَأَلَ أُخْتَه أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الثَّوْبِ الَّذِي يُجَامِعُ فِيهِ؟ قَالَتْ:" نَعَمْ إِذَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ أَذًى".
معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بہن ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماع والے کپڑوں میں نماز پڑھتے تھے؟ کہا: ہاں، لیکن ایسا تب ہوتا تھا جب کپڑوں میں گندگی نہ لگی ہوتی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 540]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطہارة 133 (366)، سنن النسائی/الطہارة 186 (295)، (تحفة الأشراف: 15868)، وقد أخرجہ: مسند احمد6/325، 426)، سنن الدارمی/الصلاة 102 (1415) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 541
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْرَقُ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى الْخُشَنِيُّ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ مَاءً، فَصَلَّى بِنَا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُتَوَشِّحًا بِهِ قَدْ خَالَفَ بَيْنَ طَرَفَيْهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تُصَلِّي بِنَا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ:" نَعَمْ أُصَلِّي فِيهِ، وَفِيهِ أَيْ قَدْ جَامَعْتُ فِيهِ".
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، آپ نے ہمیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھائی، جسے آپ اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ اس کا داہنا کنارا بائیں کندھے پر اور بایاں داہنے کندھے پر تھا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ ہمیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھا لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، میں میں اس کو پہن کر نماز پڑھ لیتا ہوں، اگرچہ اسے پہن کر مباشرت بھی کی ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 541]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10945، ومصباح الزجاجة: 222) (حسن)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی سند میں حسن بن یحییٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن کے درجہ میں ہے، صحیح ابی داود: /390)

وضاحت: ۱؎: ان روایتوں سے ثابت ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کپڑا خاص نماز کے لئے نہیں رہتا تھا، بلکہ روز مرہ کے کپڑوں سے ہی نماز بھی ادا کر لیتے تھے، اس لئے بعض لوگوں نے جو سجادے، جوڑے اور کپڑے نماز کے لئے خاص کر لئے ہیں، یہ بدعات و محدثات میں داخل ہیں، پھر اگر کوئی ان کو چھو لے تو ہندؤوں کی طرح چھوت سمجھتے ہیں، اور بھوت کی طرح الگ رہتے ہیں، ان کو وسواس خناس نے مبہوت کر دیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ قال البوصيري: ’’ ھذا إسناد فيه الحسن بن يحيي (الخشني) اتفق الجمھور علي ضعفه ‘‘ يعني ضعفه الجمھور¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 397

حدیث نمبر: 542
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يُوسُفَ الزِّمِّيُّ . ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ:" سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الثَّوْبِ الَّذِي يَأْتِي فِيهِ أَهْلَهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ، إِلَّا أَنْ يَرَى فِيهِ شَيْئًا فَيَغْسِلَهُ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا وہ اس کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے جس میں بیوی سے صحبت کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، مگر یہ کہ اس میں کسی گندگی کا نشان دیکھے تو اسے دھو لے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 542]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2206، ومصباح الزجاجة: 224)، مسند احمد (5/89، 97) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عبد الملك بن عمير مدلس وعنعن (ترمذي: 3659)¤ و الحديث السابق (الأصل: 540) يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 397