قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر میں آیت کریمہ: «والنخل باسقات لها طلع نضيد» پڑھتے ہوئے سنا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 816]
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ فجر میں: «فلا أقسم بالخنس الجوار الكنس»۱؎ کی قراءت فرما رہے تھے، گویا کہ میں یہ قراءت اب بھی سن رہا ہوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 817]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں ساٹھ (۶۰) آیات سے سو (۱۰۰) آیات تک پڑھا کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 818]
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے، اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے، اور اسی طرح فجر کی نماز میں بھی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 819]
وضاحت: ۱؎: پہلی رکعت میں قراءت کو طول دینا بہ نسبت دوسری رکعت کے مستحب ہے، اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کو جماعت مل جائے، اور پہلی رکعت نہ چھوٹے، اور بعضوں نے کہا یہ نماز فجر کے لیے خاص ہے، «واللہ اعلم» ۔
عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں «سورۃ مومنون» کی تلاوت فرمائی، جب اس آیت پہ پہنچے جس میں عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے، تو آپ کو کھانسی آ گئی، اور آپ رکوع میں چلے گئے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 820]
وضاحت: ۱؎: اس باب کی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدار قراءت مختلف بتائی گئی ہے، جس سے حسب موقعہ پڑھنے پر استدلال کیا جا سکتا ہے، آخری حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ پوری سورۃ کا پڑھنا ضروری نہیں، پہلی رکعت میں قراءت طویل کرنا، اور دوسری میں ہلکی کرنا بھی سنت رسول ہے، اور ظاہری فائدہ اس کا یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت رکعت فوت ہونے سے بچ جاتی ہے۔