الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
66. بَابُ: الصَّلاَةِ فِي النِّعَالِ
66. باب: جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1037
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْسٍ ، قَالَ: كَانَ جَدِّي أَوْسٌ أَحْيَانًا يُصَلِّي، فَيُشِيرُ إِلَيَّ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَأُعْطِيهِ نَعْلَيْهِ وَيَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ".
ابن ابی اوس کہتے ہیں کہ میرے دادا اوس رضی اللہ عنہ کبھی نماز پڑھتے ہوئے مجھے اشارہ کرتے تو میں انہیں ان کے جوتے دے دیتا (وہ پہن لیتے اور نماز پڑھتے) اور (پھر نماز کے بعد) کہتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جوتے پہن کر نماز پڑھتے دیکھا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1037]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1742، ومصباح الزجاجة: 372)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/108) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس باب میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں، بلکہ علماء نے خاص اس مسئلہ میں مستقل رسالے لکھے ہیں، حاصل یہ ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا مستحب اور مسنون ہے، اور جو کہتا ہے کہ جوتے اتار کر پڑھنا ادب ہے اس کا قول غلط ہے اس لئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل خلاف ادب نہیں ہو سکتا، دوسری حدیث میں ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھو اور یہود کی مخالفت کرو، وہ جوتے پہن کر نماز نہیں پڑھتے، البتہ یہ ضروری ہے کہ جوتے پاک و صاف ہوں، مگر ہماری شریعت میں جوتوں کی پاکی یہ رکھی گئی ہے کہ ان کو زمین سے رگڑ دے، اور جوتوں کا دھونا کسی حدیث سے ثابت نہیں، اور نہ سلف صالحین ہی سے منقول ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ تمدن اور شہریت کے اس زمانہ میں جب کہ مساجد میں فرش اور قالین بچھانے کا رواج ہے تو ان میں جوتا پہن کر جانا نامناسب ہے خاص کر برصغیر کے شہروں اور دیہاتوں کی مساجد میں کہ یہاں کی مٹی اور کیچڑ نیز راستہ کی گندگی اور کوڑا کرکٹ انسان کے جوتے اور کپڑوں میں لگ کر اس کو گندا کر دیتے ہیں، رہ گئی بات عرب دنیا کی تو وہاں پر عام زمین ریتیلی اور پہاڑی ہے اور بالعموم جوتے یا بدن میں لگنے کے بعد بھی خود سے یا رگڑنے سے صاف ہو جاتی ہے، بہرحال صفائی اور ستھرائی کا خیال کرنا بہت اہم مسئلہ ہے، اور صاف جوتے پہن کر مناسب مقام میں نماز پڑھنے کا جواز ایک الگ مسئلہ ہے، چنانچہ عرب ملکوں میں آج بھی لوگ جوتے پہن کر نماز ادا کرتے ہیں، لیکن مساجد میں جوتے پہن کر نماز نہیں ادا کرتے بلکہ اس کے لئے اندر اور باہر جگہیں ہر مسجد میں موجود ہوتی ہیں، جہاں انہیں رکھ کر آدمی مسجد میں داخل ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 1038
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَال:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي حَافِيًا وَمُنْتَعِلًا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کبھی جوتے نکال کر اور کبھی جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1038]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 89 (653)، (تحفة الأشراف: 8686)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/174، 179، 206، 215) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 1039
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَقَدْ رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي فِي النَّعْلَيْنِ وَالْخُفَّيْنِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتے، اور موزے پہن کر نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1039]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9473، ومصباح الزجاجة: 373)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/461) (صحیح)» ‏‏‏‏ (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں ابو اسحاق مدلس و مختلط ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، اور زہیر بن معاویہ خدیج کی ان سے روایت اختلاط کے بعد کی ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ أبو إسحاق عنعن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414