ابومالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ابوبکرو عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے اور کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، تو کیا وہ لوگ نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: بیٹے یہ نئی بات ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1241]
وضاحت: ۱؎: خاص خاص موقوں پر فجر کی نماز میں اور دوسری نمازوں میں بھی قنوت پڑھنا مسنون ہے۔ اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ جن لوگوں نے قراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے شہید کر دیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف مہینہ بھر قنوت نازلہ پڑھی جیسے کہ آگے حدیث ۱۲۴۳ میں آ رہا ہے۔ طارق رضی اللہ عنہ نے مطلقاً قنوت کو بدعت نہیں کہا بلکہ فجر کی نماز میں قنوت ہمیشہ پرھنے کو بدعت کہا، اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات ایک کام اصل میں سنت ہوتا ہے لیکن اسے غلط طریقے سے انجام دینے سے یا اس کو اس کی اصل حیثیت سے گھٹا دینے سے یا بڑھا دینے کی وجہ سے وہ بدعت بن جاتا ہے، یعنی اس عمل کی وہ خاص کیفیت بدعت ہوتی ہے اگرچہ اصل عمل بدعت نہ ہو۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے سے منع کر دیا گیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1242]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: 18219، ومصباح الزجاجة: 435) (موضوع)» (محمد بن یعلی متروک الحدیث اور جہمی ہے، اور عنبسہ حدیث گھڑا کرتا تھا، اور عبد اللہ بن نافع منکر احادیث کے راوی ہیں، نیز نافع کا سماع ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے صحیح نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده موضوع¤ عنبسة بن عبد الرحمٰن: متروك متھم¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 420
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھتے رہے، اور عرب کے ایک قبیلہ (قبیلہ مضر پر) ایک مہینہ تک بد دعا کرتے رہے، پھر اسے آپ نے ترک کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1243]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے: «اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين بمكة اللهم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم سنين كسني يوسف»”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور حال مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ! تو اپنی پکڑ قبیلہ مضر پر سخت کر دے، اور یوسف علیہ السلام کے عہد کے قحط کے سالوں کی طرح ان پر بھی قحط مسلط کر دے) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1244]
وضاحت: ۱؎: جیسے سالہا سال یوسف علیہ السلام کے عہد میں مصر میں گزرے تھے کہ پانی بالکل نہیں برسا اور قحط ہو گیا، ویسا ہی کفار مضر پر قحط بھیج تاکہ یہ بھوک سے تباہ و برباد ہو جائیں۔ دوسری روایت میں دعاء قنوت یوں وارد ہے: «اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات و المسلمين و المسلمات، و ألف بين قلوبهم، و أصلح ذات بينهم، وانصرهم على عدوك وعدوهم، اللهم العن الكفرة الذين يصدون عن سبيلك، ويكذبون رسلك، ويقاتلون أوليائك، اللهم خالف بين كلمتهم، و زلزل أقدامهم، و أنزل بهم بأسك الذي لاترده عن القوم المجرمين» ۔ جب کافر مسلمانوں کو ستائیں یا مسلمانوں پر کوئی آفت کافروں کی طرف سے آئے تو اس دعاء قنوت کو پڑھے، اور اس کے بعد یوں کہے: «اللهم أنج فلانا وفلانا» اور فلاں کی جگہ ان مسلمانوں کا نام لے جن کا چھڑانا کافروں سے مطلوب ہو۔ «والمستضعفين بمكة» میں مکہ کی جگہ پر اس کا نام لے جہاں یہ مسلمان کافروں کے ہاتھ سے تکلیف اٹھا رہے ہوں۔ «اللهم اشدد وطأتك على مضر» کی جگہ بھی ان کافروں کا نام لے جو مسلمانوں کو تکلیف دیتے ہیں۔ حدیث میں ولید، سلمہ اور عیاش رضی اللہ عنہم کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، یہ سب مسلمان ہو گئے تھے لیکن مکہ میں ابوجہل اور دوسرے کافروں نے ان کو سخت قید اور تکلیف میں رکھا تھا۔