الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
155. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الْعِيدَيْنِ
155. باب: عیدین کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1273
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ صَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ خَطَبَ، فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَأَتَاهُنَّ فَذَكَّرَهُنَّ، وَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، وَبِلَالٌ قَائِلٌ بِيَدَيْهِ هَكَذَا، فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْخُرْصَ وَالْخَاتَمَ وَالشَّيْءَ".
عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے نماز ادا کی، پھر خطبہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ عورتوں تک آواز نہیں پہنچ سکی ہے لہٰذا آپ ان کے پاس آئے، ان کو (بھی) وعظ و نصیحت کی، اور انہیں صدقہ و خیرات کا حکم دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا دامن پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں اپنی بالیاں، انگوٹھیاں اور دیگر سامان ڈالنے لگیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1273]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العیدین 16 (975)، 18 (977)، الزکاة 33 (1449)، النکاح 125 (5249)، اللباس 56 (5880)، الاعتصام 16 (7325)، صحیح مسلم/العیدین (884)، سنن ابی داود/الصلاة 248 (1142)، سنن النسائی/العیدین 13 (1570)، (تحفة الأشراف: 5883)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/220، 226، 242، 345، 346، 357، 368)، سنن الدارمی/الصلاة 218 (1644) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو نماز عید کے لئے عید گاہ جانا صحیح ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باپردہ اور کنواری عورتوں کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی، اور فرمایا: وہ مسجد کے باہر رہ کر دعا میں شریک رہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے عیدگاہ میں نماز عید پڑھے اس کے بعد خطبہ دے، اور نماز عیدین کے بارے میں اختلاف ہے کہ واجب ہے یا سنت، اور حق یہ ہے کہ واجب ہے اور بعضوں نے کہا آیت: «فصل لربك و انحر» سے عید کی نماز مراد ہے اور جب عید کے دن جمعہ آ جائے تو عید کی نماز پڑھنے سے جمعہ واجب نہیں رہتا یعنی جمعہ کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1274
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى يَوْمَ الْعِيدِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1274]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العیدین 8 (962)، صحیح مسلم/العیدین (884)، سنن ابی داود/الصلاة 250 (1147)، (تحفة الأشراف: 5698)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/227، 242، 285، 331، 345، 346) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس پر سب کا اتفاق ہے اور صحیح میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ہی روایت ہے، اس لئے نماز عید میں اذان یا اقامت کہنا بدعت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1275
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَجَاءٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، وعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ يَوْمَ الْعِيدِ، فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ؟ فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ، خَالَفْتَ السُّنَّةَ، أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ يَوْمَ عِيدٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ بِهِ، وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا؟، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ رَأَى مُنْكَرًا، فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (گورنر) مروان عید کے دن (عید گاہ) منبر لے گئے، اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: مروان! آپ نے خلاف سنت عمل کیا، عید کے دن منبر لے آئے، جب کہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، اور آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا جب کہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا تھا، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص خلاف شرع کام ہوتے ہوئے دیکھے اور اپنے ہاتھ سے اسے بدلنے کی طاقت رکھتا ہو تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر زبان سے بھی کچھ نہ کہہ سکتا ہو تو دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1275]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 20 (49)، سنن ابی داود/الصلاة 248 (1140)، سنن الترمذی/الفتن 11 (7172)، سنن النسائی/الإیمان 17 (5011)، (تحفة الأشراف: 4085)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العیدین 6 (956)، مسند احمد (3/10، 49، 52، 53، 54، 92) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی ایمان کا اخیر درجہ ہے اگر خلاف شرع کام کو دل سے بھی برا نہ جانے بلکہ ایسے کاموں پر چپ رہے اور دل میں بھی نفرت نہ لائے تو اس شخص میں ذرا بھی ایمان نہیں ہے، اس حدیث کو یاد رکھنا چاہئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 1276
حَدَّثَنَا حَوْثَرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ يُصَلُّونَ الْعِيدَ قَبْلَ الْخُطْبَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما عید کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1276]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العیدین 8 (963)، 19 (979)، صحیح مسلم/العیدین (888)، سنن الترمذی/الصلاة 266 (الجمعة 31) (531)، (تحفة الأشراف: 7823)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/العیدین 8 (1565)، مسند احمد (2/12، 38) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم