الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
21. بَابُ: صَدَقَةِ الْفِطْرِ
21. باب: صدقہ فطر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1825
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ"، قَالَ عَبْدُ اللَّه:" فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَهُ مُدَّيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور اور جو سے ایک ایک صاع صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر لوگوں نے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو کے برابر کر لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1825]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 70 (1503)، 71 (1504)، 74 (1507)، 77 (1511)، 78 (1512)، صحیح مسلم/الزکاة 4 (984)، (تحفة الأشراف: 8270)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الزکاة 19 (1615)، سنن الترمذی/الزکاة 35 (676)، 36 (677)، سنن النسائی/الزکاة 30 (2502)، موطا امام مالک/الزکاة 28 (52)، مسند احمد (2/5، 55، 63، 66، 102، 114، 137)، سنن الدارمی/الزکاة 27 (1702) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: صدقہ فطر وہ صدقہ ہے جو عیدالفطر کے دن نماز عید سے پہلے دیا جاتا ہے، اہل حدیث کے نزدیک ہر قسم میں سے کھجور یا غلہ سے ایک صاع، حجازی صاع سے دینا چاہئے جو پانچ رطل اور ایک تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور موجودہ وزن کے حساب سے تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1826
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، عَلَى كُلِّ حُرٍّ، أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ، أَوْ أُنْثَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر ایک پر فرض کیا، خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1826]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 71 (1506)، صحیح مسلم/الزکاة 4 (984)، سنن ابی داود/الزکاة 19 (1611)، سنن الترمذی/الزکاة 35 (676)، سنن النسائی/الزکاة 32 (2504)، 33 (2505)، (تحفة الأشراف: 8321)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 28 (52)، مسند احمد (2/5، 55، 63، 66، 102، 114، 137)، سنن الدارمی/الزکاة 27 (1702) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «فَرَضَ» معنی میں «وَجَبَ» کے ہے، صدقہ فطرکے وجوب کی یہ حدیث واضح دلیل ہے، امام اسحاق بن راہویہ نے اس کے وجوب پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ «فَرَضَ» قدر کے معنی میں ہے لیکن یہ ظاہر کے خلاف ہے، «من المسلمین» سے معلوم ہوا کہ کافر غلام کا صدقہ فطر نہیں نکالا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1827
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ ، وَأَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْخَوْلَانِيُّ ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الصَّدَفِيِّ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ، وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، فَمَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزہ دار کو فحش اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے، اور مسکینوں کی خوراک کے لیے فرض قرار دیا، لہٰذا جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کر دیا، تو یہ مقبول زکاۃ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1827]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الزکاة 17 (1609)، (تحفة الأشراف: 6133) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: لیکن صدقہ فطر نہ ہوا، صحیحین میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، سنت یہی ہے کہ صدقہ فطر نماز کے لئے جانے سے پہلے دے دے، اور اگر رمضان کے اندر ہی عید سے پہلے دے دے تو بھی جائزہے، لیکن عید کی صبح سے زیادہ اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 1828
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ تُنْزَلَ الزَّكَاةُ، فَلَمَّا نَزَلَتِ الزَّكَاةُ لَمْ يَأْمُرْنَا، وَلَمْ يَنْهَنَا، وَنَحْنُ نَفْعَلُهُ".
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن جب زکاۃ کا حکم نازل ہو گیا تو نہ تو ہمیں صدقہ فطر دینے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع کیا، اور ہم اسے دیتے رہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1828]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 35 (2508)، (تحفة الأشراف: 11098)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/442، 6/6) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیا حکم نہیں دیا، پہلا حکم ہی کافی تھا، زکاۃ کا حکم اترنے سے صدقہ فطر موقوف نہیں ہوا، بلکہ اس کی فرضیت اپنے حال پر باقی رہی۔

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 1829
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ الْفَرَّاءِ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، فَلَمْ نَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ، فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ، أَنْ قَالَ:" لَا أُرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ إِلَّا تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ هَذَا" فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَدًا مَا عِشْتُ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے ہم تو صدقہ فطر میں ایک صاع گیہوں، ایک صاع کھجور، ایک صاع جو، ایک صاع پنیر، اور ایک صاع کشمش نکالتے تھے، ہم ایسے ہی برابر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ آئے، تو انہوں نے جو باتیں لوگوں سے کیں ان میں یہ بھی تھی کہ میں شام کے گیہوں کا دو مد تمہارے غلوں کی ایک صاع کے برابر پاتا ہوں، تو لوگوں نے اسی پر عمل شروع کر دیا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جب تک زندہ رہوں گا اسی طرح ایک صاع نکالتا رہوں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نکالا کرتا تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1829]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 72 (1505)، 73 (1506)، 75 (1508)، 76 (1510)، صحیح مسلم/الزکاة 4 (985)، سنن ابی داود/الزکاة 19 (1616، 1617)، سنن الترمذی/الزکاة 35 (673)، سنن النسائی/الزکاة 37 (2513)، (تحفة الأشراف: 4269)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 28 (53)، مسند احمد (3/23، 73، 98)، سنن الدارمی/الزکاة 27 (1704) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «صاعاً من طعام» میں «طعام» سے گیہوں مرادہے «طعام» کا لفظ بعد میں ذکر کی گئی اشیاء کے ساتھ بولا گیا ہے تاکہ «طعام» اور دوسری اجناس کے درمیان فرق و تغایر واضح ہو جائے، «طعام» بول کر اہل عرب عموماً گیہوں ہی مراد لیتے ہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ «طعام» میں اجمال ہے اور مابعد اس کی تفصیل ہے، ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، جدید حساب کے مطابق ایک صاع کا وزن ڈھائی کلو گرام کے قریب ہوتا ہے، لیکن شیخ عبد اللہ البسام نے توضیح الأحکام میں صاع کا وزن تین کلو گرام بیان کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1830
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ عَمَّارٍ الْمُؤَذِّنِ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ مُؤَذِّنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَرَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ سُلْتٍ".
مؤذن رسول سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور، ایک صاع جو اور ایک صاع سلت (بے چھلکے کا جو) صدقہ فطر میں دینے کا حکم دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1830]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10345، ومصباح الزجاجة: 650) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس سند میں عمار بن سعد تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت مرسل ہے، نیز عبد الرحمن بن سعد ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح