عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا متاع (سامان) ہے، اور دنیا کے سامانوں میں سے کوئی بھی چیز نیک اور صالح عورت سے بہتر نہیں ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1855]
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عبد الرحمٰن بن زياد بن أنعم الإفريقي ضعيف¤ و روي مسلم (1467): ((الدنيا متاع و خير متاع الدنيا المرأة الصالحة)) و ھو يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 446
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سونے اور چاندی کے بارے میں آیت اتری تو لوگ کہنے لگے کہ اب کون سا مال ہم اپنے لیے رکھیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اسے تمہارے لیے معلوم کر کے کر آتا ہوں، اور اپنے اونٹ پر سوار ہو کر اسے تیز دوڑایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، میں بھی آپ کے پیچھے تھا، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کون سا مال رکھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں ہر کوئی شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان، اور ایمان والی بیوی رکھے جو اس کی آخرت کے کاموں میں مدد کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1856]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2084، ومصباح الزجاجة: 658)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیرالقرآن 10 (3094)، مسند احمد (5/278، 282) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عورت کی مدد آخرت کے کام میں یہ ہے کی آدمی اس کی وجہ سے گناہوں اور بدنظری سے بچتا ہے، اور گھر کے تمام کام عورت کر لیتی ہے مرد کو عبادت کی فرصت ملتی ہے، اگر عورت نہ ہو اور یہ کام خود کرے تو عبادت کی فرصت مشکل سے ملے گی، بعض عورتیں خود نیک اور دیندار ہوتی ہیں، ان کی صحبت کے اثر سے مرد بھی زاہد اور عابد ہو جاتا ہے، بعض عورتیں اپنے شوہر کو تہجد کی نماز کے لئے جگاتی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (3094)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 446
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”تقویٰ کے بعد مومن نے جو سب سے اچھی چیز حاصل کی وہ ایسی نیک بیوی ہے کہ اگر شوہر اسے حکم دے تو اسے مانے، اور اگر اس کی جانب دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے، اور اگر وہ اس (کے بھروسے) پر قسم کھا لے تو اسے سچا کر دکھائے، اور اگر وہ موجود نہ ہو تو عورت اپنی ذات اور اس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1857]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4919، ومصباح الزجاجة: 659) (ضعیف)» (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ علي بن يزيد وعثمان بن أبي العاتكة: ضعيفان¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 446