ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین میں چلے جانے کی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی، تو وہ ویسے ہی ہو گا جیسا اس نے کہا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2098]
وضاحت: ۱؎: مثلاً یوں کہا: اگر میں فلاں کام کروں تو یہودی ہوں، یا نصرانی ہوں، یا اسلام سے یا نبی سے بری ہوں۔ اور اس کی طرح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہو جائے گا، اور اسلام سے نکل جائے گا، ظاہر حدیث کا یہی مطلب ہے، واضح رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی سختی سے یہ بات اس لیے فرمائی کہ لوگ ایسا کہنے سے بچیں، ورنہ اگر اس کا عقیدہ اسلام کا ہے تو کافر نہ ہو گا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا کہ اگر میں ایسا کروں تو یہودی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر یہ قسم واجب ہو گئی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2099]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1310، ومصباح الزجاجة: 737) (ضعیف جدا)» (سند میں بقیہ بن ولید مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبد اللہ بن محرر منکر الحدیث اور متروک ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف جدًا¤ عبد اللّٰه بن محرر: متروك (تقريب: 3573)¤ والسند ضعفه البوصيري لتدليس بقية بن الوليد¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 454
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کہے اگر ایسا کروں تو اسلام سے بری ہوں، اگر وہ جھوٹا ہے تو ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا، اور اگر وہ اپنی بات میں سچا ہے تو بھی اسلام کی جانب صحیح سالم سے نہیں لوٹے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2100]
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس نے اسلام کی عظمت تسلیم نہیں کی، اور دین کو ایسا حقیر سمجھا کہ بات بات پر اس سے جدا ہو جانے کی شرط لگاتا ہے، مسلمان کو ہرگز ایسی شرط نہ لگانی چاہئے، گو وہ کتنا ہی بڑا کام ہو، اپنا دین سب سے زیادہ پیارا ہے، اور سب پر مقدم ہے، کوئی کام ہو یا نہ ہو، دین کی شرط لگانے سے کیا فائدہ؟ اور حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جو کوئی ایسی شرط لگائے، پھر اس میں سچا بھی ہو جب بھی گنہگار ہو گا، اور اس کے دین میں خلل آئے گا۔