عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”اپنے باپ دادا کی قسمیں نہ کھاؤ، جو شخص اللہ کی قسم کھائے تو چاہیئے کہ وہ سچ کہے، اور جس سے اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہی جائے تو اس کو راضی ہونا چاہیئے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے نام پہ راضی نہ ہو وہ اللہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2101]
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان نے اللہ کی قسم کھائی، تو اب اس کے بیان کو مان لینا اور اس پر رضا مند ہو جانا چاہئے، اب اس سے یوں نہ کہنا چاہئے کہ تمہاری قسم جھوٹی ہے، یا اللہ کے سوا اب کسی اور شخص کی اس کو قسم نہ کھلانی چاہئے، جیسے جاہلوں کا ہمارے زمانہ میں حال ہے کہ اللہ کی قسم کھانے پر ان کی تسلی نہیں ہوتی، اور اس کے بعد پیر و مرشد یا نبی و رسول یا کعبہ یا ماں باپ کی قسم کھلاتے ہیں، یہ نری حماقت اور سراسر جہالت ہے، اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کسی کا درجہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے برابر بھی کوئی نہیں ہے، سب سے زیادہ مومن کو اللہ کے نام کی حرمت و عزت اور عظمت کرنی چاہئے، اور احتیاط رکھنی چاہئے کہ اول تو اللہ کے سوا اور کسی کی قسم ہی نہ کھائے، اور اگر عادت کے طور پر اور کسی کے نام کی قسم نکل جائے اور جھوٹ اور غلط ہو جائے تو فوراً لا إِلَهَ إِلا الله کہے یعنی میں اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور کو اس معاملے میں عظمت و احترام کے لائق نہیں جانتا غیر کے الفاظ تو یونہی سہواً یا عادتاً میرے زبان سے نکل گئے تھے، مگر ایک بات یاد رہے کہ اللہ کے نام کی کبھی جھوٹی قسم نہ کھائے، اگر پیر، رسول، نبی، مرشد، ولی، غوث اور قطب وغیرہ کے نام پر لاکھوں قسمیں جھوٹ ہو جائیں تو اتنا ڈر نہیں ہے جتنا اللہ تعالی کے نام کی ایک قسم جھوٹ ہونے سے ہے، یہ حکم مسلمانوں کے لئے ہے کہ جب وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اب زیادہ تکلیف ان کو نہ دی جائے کہ وہ کسی اور کے نام کی بھی قسم کھائیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ابن عجلان عنعن¤ وحديث ((لا تحلفوا بآبا ئكم)) صحيح متفق عليه (البخاري: 6648،مسلم 1646)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 454
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ”تم نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں اللہ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنی آنکھ کو جھٹلا دیا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2102]
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ کی عظمت کے سامنے میری آنکھ کی کوئی حقیقت نہیں ہے، ممکن ہے کہ مجھ کو دھوکا ہوا ہو، آنکھ نے دیکھنے میں غلطی کی ہو، لیکن یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا کہ مسلمان کی قسم کو جھٹلاؤں، ہمیشہ صالح، نیک اور بزرگ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب مسلمان ان کے سامنے قسم کھا لیتا ہے تو ان کو یقین آ جاتا ہے، اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان کبھی جھوٹی قسم نہیں کھائے گا۔