ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا سب سے عمدہ کھانا وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی کا ہو، اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2137]
وضاحت: ۱؎: اگر والدین محتاج اور ضرورت مند ہوں تو ان کا نفقہ (خرچ) اولاد پر واجب ہے، اور جو محتاج یا عاجز نہ ہوں تب بھی اولاد کی رضامندی سے اس کے مال میں سے کھا سکتے ہیں، مطلب حدیث کا یہ ہے کہ اولاد کا مال کھانا بھی طیب (پاکیزہ) اور حلال ہے، اور اپنے کمائے ہوئے مال کی طرح ہے۔
مقدام بن معدیکرب زبیدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2138]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11561)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 15 (2072)، مسند احمد (4/131، 132) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچا، امانت دار مسلمان تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہو گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2139]
وضاحت: ۱؎: تجارت کے ساتھ سچائی اور امانت داری بہت مشکل کام ہے، اکثر تاجر جھوٹ بولتے ہیں اور سودی لین دین کرتے ہیں، تو کوئی تاجر سچا امانت دار، متقی اور پرہیزگار ہو گا تو اس کو شہیدوں کا درجہ ملے گا، اس لئے کہ جان کے بعد آدمی کو مال عزیز ہے، بلکہ بعض مال کے لئے جان گنواتے ہیں جیسے شہید نے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کی، ایسے ہی متقی تاجر نے اللہ تعالی کی راہ میں دولت خرچ کی، اور حرام کا لالچ نہ کیا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ ضعيف¤ كلثوم بن جوشن: ضعيف(تقريب: 5655)¤ وللحديث شاهد ضعيف عند الترمذي (1209)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 456
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے لیے محنت و کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے، اور اس شخص کے مانند ہے جو رات بھر قیام کرتا، اور دن کو روزہ رکھتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2140]
عبداللہ بن خبیب کے چچا سے روایت ہے ہم ایک مجلس میں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں اچانک تشریف لے آئے، آپ کے سر مبارک پر پانی کا اثر تھا، ہم میں سے ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا: آپ کو ہم آج بہت خوش دل پا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، بحمداللہ خوش ہوں“، پھر لوگوں نے مالداری کا ذکر چھیڑ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل تقویٰ کے لیے مالداری کوئی حرج کی بات نہیں، اور تندرستی متقی کے لیے مالداری سے بہتر ہے، اور خوش دلی بھی ایک نعمت ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2141]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15606، ومصباح الزجاجة: 756)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/372، 381) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحت اور خوش دلی کی نعمت تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اگر مال لاکھوں کروڑوں ہو، لیکن صحت اور خوش دلی و اطمینان نفس نہ ہو تو سب بیکار ہے، یہ صحت اور طبیعت کی خوشی اللہ تعالی کی طرف سے ہے، جس بندے کو اللہ چاہتا ہے ان نعمتوں کو عطا کرتا ہے، یا اللہ ہم کو بھی ہمیشہ صحت و عافیت اور خوش دلی اور اطمینان قلب کی نعمت میں رکھ۔ آمین۔