ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا کی طلب میں اعتدال کا طریقہ اپناؤ اس لیے کہ جس چیز کے لیے آدمی پیدا کیا گیا ہے وہ اسے مل کر رہے گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2142]
وضاحت: ۱؎: یعنی کمانے کے چکر میں زیادہ نہ پڑو، آدمی کے مقدر (قسمت) میں جو چیز اللہ تعالی نے لکھ دی ہے، وہ اسے مل کر رہے گی، تو بے اعتدالی اور ظلم کی کوئی ضرورت نہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ فکرمندی اس مومن کو ہوتی ہے جسے دنیا کی بھی فکر ہو اور آخرت کی بھی“۔ ابوعبداللہ (ابن ماجہ) کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اس لیے کہ اسماعیل اس کی روایت میں منفرد ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2143]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1684، ومصباح الزجاجة: 758) (ضعیف)» (سند میں یزید الرقاشی، حسن بن محمد اور اسماعیل بن بہرام تینوں ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: بے دین آدمی کو آخرت سے کوئی غرض اور دلچسپی نہیں، اسے تو صرف دنیا کی فکر ہے، اور جو کچا مسلمان ہے اس کو دونوں فکریں لگی ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالی پر اس کو پورا بھروسہ اور اعتماد نہیں ہے، اور جو پکا مسلمان ہے اس کو فقط آخرت کی ہی فکر ہے، اور دنیا کی زیادہ فکر نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ رازق اور مسبب الاسباب ہے، جب تک زندگی ہے، وہ کہیں سے ضرور کھلائے اور پلائے گا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ فيه علل منھا ضعف يزيد الرقاشي: زاهد ضعيف¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 456
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اللہ سے ڈرو، اور دنیا طلبی میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، اس لیے کہ کوئی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنی روزی پوری نہ کر لے گو اس میں تاخیر ہو، لہٰذا اللہ سے ڈرو، اور روزی کی طلب میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، صرف وہی لو جو حلال ہو، اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2144]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2880، ومصباح الزجاجة: 759) (صحیح)» (سند میں ولید بن مسلم، ابن جریج اور ابوالزبیر تینوں مدلس راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2607)